عاجز ، غریب کی زندگی بگڑ گئی کتابی چہرے کے چکر میں ، آپ ترتیب کی بات کر رہے ہیں صاحب !
دیوان غالب کی ہیت کا چہرہ ہوتا تو کوئی بات نہ تھی ، میر کا دیوان بھی مقابل ضخیم نہیں
وہ ، شمشاد بھائی غائب کہاں ہونا ہے ، سلیمانی ٹوپی تو پاس ہے نہیں کہ جب چاہا پہن کر غائب
نورا کشتی نے اصل کشتی کی جگہ لے لی ہے
پہلوان بھی اب اصل نہیں رہے ، دودھ ، اصلی گھی گوشت کے بجائے
وٹامنز پر ہی گزارا ہے ان کا، اوپر سے سٹریورائیڈز
ثالث خواہ کتنا بھی غیر جانبدار ہو ، مصالحت میں متوقع نتیجہ نہ دیکھنے،
یا پانے والا اُسے ہی اپنی نا خوشی کی وجہ گردانتا ہے ۔ یا اس کے ذہن میں
کچھ اس قسم کا خیال آ ہی جاتا ہے
آنند نرائن مُلّا
غزل
تابِ جلوہ بھی تو ہو، وہ سُوئے بام آیا تو کیا
چشمِ مُوسیٰ لے کے عشقِ تشنہ کام آیا تو کیا
کردِیا اِک باراُس کا پیکرِ خاکی تو سُرخ
خُونِ دل گرخنجرِ قاتِل کے کام آیا تو کیا
مُدّعائے دِل سمجھ لیں گے، اگر چاہیں گے وہ
میرے ہونٹوں تک سوالِ نا تمام آیا تو کیا
گِرچُکی اِک بار...
سمجھا رہے تھے مجھ کو سبھی ناصحانِ شہر
پھر رفتہ رفتہ خود اُسی کافر کے ہو گئے
کیا کہنے
ساقی صاحب ۔
انتخابِ خوب کو ہم سے شیئر کرنےپر تشکّر
بہت خوش رہیں :)