مجھ کو پینا زہر کا اب پیالہ ہے
مار شہرت نے مجھے جو ڈالا ہے
اس کی فطرت شوخ موسم جیسی تھی
وہ خزاں میں چھوڑ جانے والا ہے
زخم اس کے مضحمل ہوتے نہیں
یونہی دم میرا نکل بھی جانا ہے
دل کی بستی بارشوں سے اجڑی ہے
ہر گھڑی اب کیا جی کا بہلانا ہے
منتظر ہو سحر کی تم نور کیوں ...؟
مستقل کیا اس جہاں...