شعر اچھا ہے مگر تضادِ فطرت و سرِشت رکھتا ہے
کیونکہ مرہم ، نام یا شناخت ہی مندمل کرنے کا ہے
اس لئے ناخن کو مرہم گرداننا ، یا تشبیہہ دینا مرے خیال
میں کچھ صحیح تاثر نہیں دیتا ، ہو سکتا ہے کہ میری یہ
سوچ درست نہیں ہو، آپ بہت بہتر جانتے ہیں :):)
غزل
تلوک چند محرُوم
ہم دل جَلوں کو اے بُتِ نامہرباں نہ چھیڑ
بھڑکے گا اور شعلۂ سوزِ نہاں، نہ چھیڑ
صیّاد اور خِزاں کے سِتم اِس پہ کم نہیں
تو عندلیبِ زار کو، اے باغباں نہ چھیڑ
ہے، ہے ! کِسی کی بزم مجھے یاد آ گئی
واعظ خُدا کے واسطے، ذکرِ جناں نہ چھیڑ
دُنیا میں اے زیاں روشِ صلحِ کل نہ چھوڑ...
فراق گورکھپوری
غزل
سر میں سودا بھی نہیں ، دل میں تمنّا بھی نہیں
لیکن اِس ترکِ محبّت کا بھروسہ بھی نہیں
بُھول جاتے ہیں کسی کو مگر ایسا بھی نہیں
یاد کرتے ہیں کسی کو، مگر اِتنا بھی نہیں
تم نے پُوچھا بھی نہیں، میں نے بتایا بھی نہیں
کیا مگر راز وہ ایسا تھا کہ جانا بھی نہیں
ایک مُدّت سے تِری...
فراق گورکھپوری
غزل
دل افسُردوں کے اب وہ وقت کی گھاتیں نہیں ہوتیں
کسی کا درد اُٹّھے جن میں وہ راتیں نہیں ہوتیں
ہم آہنگی بھی تیری دُورئ قربت نُما نِکلی
کہ تجھ سے مِل کے بھی تجھ سے مُلاقاتیں نہیں ہوتیں
یہ دَورِ آسماں بدلا، کہ اب بھی وقت پر بادل !
برستے ہیں، مگر اگلی سی برساتیں نہیں ہوتیں...