فراق گورکھپوری
غزل
کچھ اپنا آشنا، کیوں اے دلِ ناداں نہیں ہوتا
کہ آئے دن، یہ رنگِ گردشِ دَوراں نہیں ہوتا
ریاضِ دہرمیں جُھوٹی ہنْسی بھی ہم نے دیکھی ہے
گُلِستاں دربغل ہر غنچۂ خنداں نہیں ہوتا
یقیں لائیں تو کیا لائیں، جو شک لائیں توکیا لائیں
کہ باتوں میں تِری سچ جُھوٹ کا اِمکان نہیں ہوتا...
کہایہ سچ ، کہ پابندی نہیں ہےصحنِ گلشن میں
مگر کِس نے کہا یہ صحن ہے گلشن نہیں پورا
راقم
:):)
(میرے خیال میں بہنا ہم چُنیدہ اشعار کا لطف خراب کر رہے ہیں )
فراق گورکھپوری
غزل
فسُردہ پا کے محبّت کو ، مُسکرائے جا
اب آ گیا ہے تو، اِک آگ سی لگائے جا
اِس اِضطراب میں رازِ فروغ پنہاں ہے
طلوعِ صبْح کی مانِند تھرتھرائے جا
جہاں کو دیگی محبّت کی تیغ آبِ حیات
ابھی کچُھ اور اِسے زہر میں بُجھائے جا
مِٹا مِٹا کے، محبّت سنْوار دیتی ہے
بگڑ بگڑ کے یونہی...
جی پہلے کئی بار تدوین (غلطی کا خوگر ہوں) کر چکا ہوں ۔ مگر اب نہیں نظر آیا ، غلطی کا احساس اسے چسپاں کرنے کے فورا بعد
ہی ہو گیا تھا ، چلیں اب فراق صاحب کی غزل لگا کر بائیں جانب اوپر ، ترجیحی یا مدون کرنے کا اختیار دوبارہ دیکھتا ہوں :)
جواب کے لئے تشکّر :):)
نہیں سعود صاحب
کافی تلاش کیا ، عنوان میں ترمیم کی کوئی سبیل، مگر ناکام رہا :)
عنوان میں ترمیم کا اختیار جو پہلے تھا، شاید اب ہر اِک کو نہیں حاصل
آپ درست کردیں گے تو عنایت ہوگی :)
مستقبل میں بھی ایسی کوتاہ نگاہی کی تصحیح از خود ہی کردیں گے تو کیا بات ہو
زحمت کے لئے شرمندہ ہوں
واپس لوٹ آنے...
کسی کا کون رہا یوں تو عمر بھر، پھر بھی
یہ حُسن وعشق تودھوکہ ہے سب ، مگر پھربھی
ہزار بار زمانہ اِدھر سے گزُرا ہے
نئی نئی سے ہے کچُھ تیری رہگذر پھر بھی
فراق گورکھپوری