غمِ حیات وہی دورِ کائنات وہی
جو زندگی نہ بدل دے وہ زندگی کیا ہے
تو میرے عشق کا آغاز ہے، میں ہُوں انجام
یہ سِلسِلہ تو بہت دُور تک پُہنچتا ہے
فراق گورکھپوری
کِسے خبر تھی تِرے ظلم کے لئے الله
مجھی کو روزِ ازل اِنتخاب کردے گا
کہیں چھپائے سے چھپتا ہے لعل گدڑی میں
فروغِ حُسن تجھے بے نقاب کردے گا
بھلائی اپنی ہے سب کی بھلائی میں بیخود
کبھی ہمیں بھی خُدا کامیاب کردے گا
گفتاربیخود
کہاں تک تم جلاتے، تم کہاں تک سر جُدا کرتے
قیامت تک نہ یہ اندازِ تسلیم و رضا جاتا
تمہاری یاد، میرا دل، یہ دونوں چلتے پُرزے ہیں
جو اِن میں سے کوئی مِٹتا ، مجھے پہلے مِٹا جاتا
گفتاربیخود
ہوتے ہی جواں، ہوگئی پابندِ حجاب اور
گھونگھٹ کا اضافہ ہوا بالائے نقاب اور
جب میں نے کہا کم کروآئینِ حجاب اور
فرمایا بڑھا دُوں گی ابھی ایک نقاب اور
سائل دہلوی