غزل
جلیل حسن جلیل
ادا ادا تِری موجِ شراب ہو کے رہی
نگاہِ مست سے دُنیا خراب ہو کے رہی
تِری گلی کی ہوا ، دل کو راس کیا آتی
ہُوا یہ حال، کہ مٹّی خراب ہو کے رہی
ہماری کشتئ توبہ کا ، یہ ہُوا انجام
بہار آتے ہی ، غرقِ شراب ہو کے رہی
وہ آہِ دل جسے سُن سُن کے آپ ہنستے تھے
خدنگِ ناز کا ، آخر...
جب تک خلشِ درد تھی، اِک گو نہ مزہ تھا
جب سے مجھے آرام ہے، آرام نہیں ہے
تم یاں سے گئے کیا مِری دُنیا ہی بدل دی
وہ لطف نہیں ، وہ سحر و شام نہیں ہے
جلیل حسن جلیل مانکپوری