You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
-
دریائے معاصی تنک آبی سے ہُوا خُشک
میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہُوا تھا
مزا غالب
-
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصوّرِ جاناں کئے ہوئے
مرزا غالب
-
سُنا ہے میں نے بھی ذکرِ بہشت وحور و قصور
خُدا کا شُکر ہے نیّت مِری خراب نہیں
حفیظ جالندھری
-
تمناؤں میں اُلجھایا گیا ہُوں
کھلونے دیکے بہلایا گیا ہُوں
شادعظیم آبادی
-
الُٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کچُھ نہ دوا نے کام کِیا
دیکھا اِس بیمارئ دل نے آخر کام تمام کِیا
میر تقی میر
-
زندگی یوں بھی گزُر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزُر یاد آیا
مرزا غالب
-
کوُچہ اُس فتنۂ دوراں کا دِکھا کر چھوڑا
دل نے آخر ، ہمیں دیوانہ بناکر چھوڑا
حسرت موہانی
-
زندگی اپنی، ہو کے اُن سے جُدا
سخت گزرے گی ، اگر گزُرے
حسرت موہانی
-
تِرے کوُچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا کبھی اُس سے بات کرنا
شیخ غلام ہمدانی مصحفی
-
تُجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا !
برابر ہے ، دُنیا کو دیکھا نہ دیکھا
میر تقی میر
-
یاد اُس کی اِتنی خُوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ دل سے بُھلایا نہ جائے گا
میر تقی میر
-
کچُھ نہیں اِس کے سِوا جوش حرِیفوں کا کلام
وصل نے شاد کیا ، ہجر نے نا شاد کیا
جوش ملیح آبادی
-
زیست ہے جب مُستقل آوارہ گردی ہی کا نام
عقل والوں پھر طوافِ کوُئے جاناں کیوں نہ ہو
جوش ملیح آبادی
-
اِ ک نہ اِک رفعت کے آگے سجدہ لازم ہے تو پھر
آدمی محوِ سجُودِ سروِ خُوباں کیوں نہ ہو
جوش ملیح آبادی
-
فکر ہی ٹھہری تو دل کو فکرِ خُوباں کیوں نہ ہو
خاک ہونا ہے تو خاکِ کوُئے جاناں کیوں نہ ہو
جوش ملیح آبادی
-
خُدا کو اہلِ جہاں جب بنا چُکے تو فراق
پُکار اُٹھّے کہ ، خُدا نے ہمیں بنایا ہے
فراق گورکھپوری
-
تم ہمارے کسی طرح نہ ہُوئے
ورنہ ، دُنیا میں کیا نہیں ہوتا
مومن خاں مومن
-
جفا سے تھک گئے تو بھی نہ پُوچھا
کہ تو نے کِس توقّع پر وفا کی
مومن خاں مومن
-
مجھے، اب دیکھ کر ابرِ شفق آلودہ، یاد آیا !
کہ فرقت میں تِری، آتش برستی تھی گلستاں پر
مرزا غالب
-
کہا میں نے گُل کا ہے کتنا ثبات
کلی نے یہ سُن کر تبسّم کیا
میرتقی میر