حالِ دل نا سازگار بھی تو نہیں
پر دِلوں کو قرار بھی تو نہیں
کوئی کچّے گھڑے پہ کیا تیرے
عشق دریا کے پار بھی تو نہیں
ہارنا چاہتے ہیں دل اپنا
اپنی قسمت میں ہار بھی تو نہیں
باقر زیدی
کیا عجب بات ہو گئی سائیں
نفی اثبات ہو گئی سائیں
دل ہراِک امتحاں میں جیت گیا
عقل کو مات ہو گئی سائیں
آپ ہم کو نصیب کیا ہوتے
کچھ کرامات ہوگئی سائیں
باقر زیدی
تشکّر غزنوی صاحب !
مطلع اور حُسن مطلع رہ گیا تھا ، بہت نوازش توجہ کرنے پر ۔
اظہارِ خیال پر بھی ممنُون ہوں، خوشی ہوئی کہ جگر صاحب کی، میری یہ پیش کردہ غزل
آپ کو پسند آئی
بہت خوش رہیں صاحب :):)
غزلِ
جگرمُرادآبادی
دل میں کسی کے راہ کیے جا رہا ہوں میں
کتنا حسِیں گُناہ کیے جا رہا ہوں میں
دُنیائے دِل تباہ کیے جارہا ہوں میں
صرفِ نگاہ و آہ کیے جارہا ہوں میں
فردِ عمل سیاہ کیے جا رہا ہوں میں
رحمت کو بے پناہ کیے جارہا ہوں میں
ایسی بھی اِک نِگاہ کیے جارہا ہوں میں
ذرّوں کو مہر و ماہ...
غزلِ
ثاقب لکھنوی
ایک ایک گھڑی اُس کی قیامت کی گھڑی ہے
جو ہجر میں تڑپائے، وہی رات بڑی ہے
یہ ضُعف کا عالم ہے کہ ، تقدیر کا لِکھّا
بستر پہ ہُوں میں یا ، کوئی تصویر پڑی ہے
بیتابئ دل کا ، ہے وہ دِلچسپ تماشہ !
جب دیکھو شبِ ہجر مِرے در پہ کھڑی ہے
اب تک مجھے کُچھ اور دِکھائی نہیں دیتا
کیا...