غزل
(پنڈت رادھے ناتھ کول صاحب المتخلص بہ گلشن)
بھُلا دیں ہم اُنہیں ہم سے تو ایسا ہو نہیں سکتا
وہ ہم کو بھول جائیں یہ بھی اصلا ہو نہیں سکتا
اگر ہم مُتحد ہوجائیں پھر کیا ہو نہیں سکتا
نہ قطرے جمع ہوں باہم تو دریا ہو نہیں سکتا
طلب مطلوب کی طالب کو ہونی چاہیئے دل سے
بنے جس کا نہ سودائی وہ سودا ہو...
غزل
(حسرت موہانی)
چادر جو کہیں حُسنِ رُخِ یار کی سرکی
قابو میں طبیعت نہ رہی ذوقِ نظر کی
سوتے میں جو دیکھا تھا رُخِ یار کا عالم
آنکھوں میں یہ خنکی ہے اُسی نورِ سحر کی
ہے شو ق بھی گرویدہ ترے نقشِ قدم کا
مائل ہےعقیدت بھی ترے سجدۂ درکی
چاہا تھا کہ پھر ان کو نہ چھیڑیں گے پہ چھیڑا
خواہش کوئی پھر...
غزل
(جوش ملیح آبادی)
رُکنے لگی ہے نبضِ رفتارِ جاں نثاراں
کب تک یہ تندگامی اے میرِشہسواراں
اٹھلا رہے ہیں جھونکے، بوچھار آرہی ہے
ایسے میں تو بھی آجا، اے جانِ جاں نثاراں
کب سے مچل رہی ہے اس زلفِ خم نہ خم میں
تعبیرِ خوابِ سُنبل، تفسیرِ بادوباراں
خُوبانِ شہر کیا کیا اترا کے چل رہے ہیں
آ بوستاں...
غزل
(جگر مراد آبادی)
وہ مجسّم مری نگاہ میں ہے
اک جھلک جس کی مہروماہ میں ہے
کیا کشش حُسنِ بےپناہ میں ہے
جو قدم ہے اسی کی راہ میں ہے
میکدے میں نہ خانقاہ میں ہے
میری جنّت تری نگاہ میں ہے
ہائے وہ رازِغم کہ جو اب تک
مرے دل میں تری نگاہ میں ہے
ڈگمگانے لگے ہیں پائے طلب
دل ابھی ابتدائے راہ میں ہے...
غزل
(جان نثار اختر)
اُن کی نظروں میں مجسّم دل ہوا جاتا ہوںمیں
اب تو خود ہی ناز کے قابل ہوا جاتا ہوںمیں
جذب ہوتا جارہا ہے مجھ میں جلوہء حسن کا
آپ ہی شمعِ سرِ محفل ہوا جاتا ہوںمیں
ایک آنسو میں ڈھلی جاتی ہے ساری زندگی
دامنِ جاناں ترے قابل ہوا جاتا ہوںمیں
خواب آسا زلفِ شب گوں، شبنم آسا چشمِ ناز...
غزل
(معین احسن جذبی)
ہم دہر کے اس ویرانے میں جو کچھ بھی نظارا کرتے ہیں
اشکوں کی زباں میں کہتے ہیں، آہوں میں اشارا کرتے ہیں
کیا تجھ کو پتہ، کیا تجھ کو خبر، دن رات خیالوں میں اپنے
اے کاکلِ گیتی، ہم تجھ کو جس طرح سنوارا کرتے ہیں
اے موجِ بلا! ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک...
غزل
(حفیظ جالندھری)
وہ ہوئے پردہ نشیں انجمن آرا ہو کر
رہ گیا میں ہمہ تن چشمِ تمنّا ہوکر
حُسن نے عشق پہ حیرت کی نگاہیں ڈالیں
خود تماشا ہوئے ہم محوِ تماشا ہوکر
آنکھ کمبخت سے اس بزم میں آنسو نہ رُکا
ایک قطرے نے ڈبویا مجھے دریا ہوکر
کوئی ہو دردِ محبت کا مداوا کردے
ملک الموت ہی آجائے مسیحا ہوکر...
کب غیر پہ تو شاد نظر رکھتا ہے
دیکھا تجھے عرفان میں تو پکا ہے
یہ عارفِ کامل نے تجھے دی تعلیم
ہے حق کے سوا جو کچھ وہ اک دھوکا ہے
(مہاراجہ سر کش پرشاد بہادر)
دُنیا سے گئے جتنے بھی اگلے پچھلے
پلٹے نہ عدم سے اور کسی سے نہ ملے
وہ ایک ہی گردش میں ہے پرکار کی طرح
آخر بھی وہی ہے جو ہے سب سے پہلے
(مہاراجہ سر کش پرشاد بہادر)
ہو عرشِ بریں پر کہ زمیں پر ہو خُدا
ملتا ہے اسے جس نے کہ دل سے ڈھونڈا
جس دم کہ ہوا ذات سے اسکی واصل
منصور کی مانند وہ کہتا ہے اَنا
(مہاراجہ سر کش پرشاد بہادر)
جو بحرِ فنا کی سطح پر بہتے ہیں
کب راز کسی سے اپنا وہ کہتے ہیں
اس بحر میں جو ڈوب گئے ہیں، اے شاد
وہ "وحدہ لاشریک لہ"رہتے ہیں
(مہاراجہ سر کش پرشاد بہادر)
غزل
(رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر)
مل چکا تجھ سے صلہ ہم کو وفاداری کا
تجھ کو آیا نہ سلیقہ کبھی دل داری کا
طفل مکتب ہے ترے سامنے خود چرخ کہن
کس سے سیکھا ہے یہ انداز دل آزاری کا
عقل والا کوئی بچتا نہیں پھندے سے ترے
گو بہت عام ہے شہرہ تری عیاری کا
ہم کو خود شوقِ شہادت ہے، گواہی کیسی؟
فیصلہ...
غزل
(ضیاء الاسلام)
اُف وہ رنگیں شباب آنکھوں میں
اک بہکتا سا خواب آنکھوں میں
میکشوں میں یہ دھوم ہے کہ پیو
وہ گلابی شراب آنکھوں میں
زاہدوں کو بھی شوق اُٹھا کہ پئیں
جب سے دیکھی شراب آنکھوں میں
دل میں ہنگامہ کرگیا برپا
وہ مچلتا شباب آنکھوں میں
تار سب دل کے جھنجھنا اُٹھے
اُف وہ رنگیں رباب...
کہتے ہیں تجھے اور ستائیں گے ابھی
اٹھ اٹھ آنسو یونہی رلائیں گے ابھی
آساں نہیں ہے دل لگانا ہم سے؟
یہ یاد رہے اور جلائیں گے ابھی
(نواب عزیز یار جنگ بہادر عزیر حیدرآبادی)