غزل
(بہزاد لکھنوی)
تم کو بُلا تو لوں، مگر، آبھی سکو گے تم
سچ سچ کہو، یہ بار اُٹھا بھی سکو گے تم
تم کو تخیلات میں لا تو رہا ہوں میں
بزمِ تصوّرات سجا بھی سکو گے تم
اظہارِ عاشقی تو کروں لاکھ بار میں
بارِ جنونِ شوق اُٹھا بھی سکو گے تم
جلوؤں سے چار ہونے کو تیار ہے نظر
اس کو فریبِ حسن میں لا بھی...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
سر ہے قدموں پہ بے خودی تو دیکھ
اپنے بندے کی بندگی تو دیکھ
بےخبر خود سے، باخبر تجھ سے
بےخودی میں یہ آگہی تو دیکھ
جان دینے کو زندگی سمجھے
عشق والوں کی زندگی تو دیکھ
مدبھری مست انکھڑیوں والے
تیرے قرباں ادھر کبھی تو دیکھ
غم میں مسرور ہوں، الم میں خوش
کیا خوشی ہے مری خوشی...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
بہت ہی حسیں ہے تمہارا تصوُّر
نظر آفریں ہے تمہارا تصوُّر
مرے دل کی زینت نگاہوں کی زینت
بھلا کب نہیں ہے، تمہارا تصوُّر
نگاہیں تصوّر کی خیرہ نہ ہوں کیوں
بڑا مہ جبیں ہے تمہارا تصوُّر
مبارک ہو یہ ربط حسن و محبت
ہماری جبیں ہے تمہارا تصوُّر
تمہارا تخیّل ہے ایمان دل کا
نگاہوں کا...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
کیا یہ بھی میں بتلا دوں ، تُو کون ہے ، میں کیا ہوں
تو جانِ تماشا ہے، میں محوِ تماشا ہوں
تو باعثِ ہستی ہے، میں حاصلِ ہستی ہوں
تو خالقِ اُلفت ہے اور میں ترا بندہ ہوں
جب تک نہ ملا تھا تو اے فتنہء دوعالم
جب درد سے غافل تھا، اب درد کی دُنیا ہوں
کچھ فرق نہیں تجھ میں اور مجھ میں...
غزل
(فاضل کاشمیری)
دونوں عالم سے نِرالی عشق کی سرکار ہے
ہوش سے جو بےخبر ہے، وہ یہاں ہُشیارہے
رو رہے ہیں خُون کے آنسو مرے زخم جگر
دل مرے پہلو میں ہے یا دیدہء خُونبار ہے
آنکھ ملناتھاکہ رُخصت ہوگئےصبروقرار
کیا اِسے دیدار کہتےہیں، یہی دیدارہے
ہجر کی راتیں مری ہوجائیں گھڑیاں وصل کی
یہ تمہیں آسان...
غزل
(فاضل کاشمیری)
میں سمجھا تھا محبت پھر محبت ہے مزا دے گی
یہ کیا معلوم تھا ظالم شبِ فُرقَت رُلا دے گی
وہ گھڑیاں گِن رہا ہے موت کی اے واے ناکامی
جو کہتا تھا محبت زندگی میری بنا دے گی
غلط ہے یہ وہ آئیں گے، نہ آئے ہیں، نہ آئیں گے
بتا اے شامِ غَم کب مجھ کو پیغامِ قضا دے گی
مجھے بَس دیکھ لو...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
حُسن کی جنّتیں ارے توبہ
عشق کی حیرتیں ارے توبہ
ٹیس اٹھتی ہے مسکراتا ہوں
درد کی لذتیں ارے توبہ
ہائے اس زندگی میں اس دل پر
روز کی آفتیں ارے توبہ
دل پرسانِ حال کوئی نہیں
اس پہ یہ حسرتیں ارے توبہ
عشق کے ساتھ بندگی بھی کروں
اس قدر فرصتیں ارے توبہ
لُٹ رہی ہیں بصورت جلوہ
حسن کی...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
میں ان کی نظروں میں سمایا ہوا ہوں
فضائے محبت پہ چھایا ہوا ہوں
میں محفل میں اُن کی جو آیا ہوا ہوں
بلایا ہوا ہوں، بلایا ہوا ہوں
لبوں پہ مرے کیوں نہ ہو مسکراہٹ
نظر کا تری گدگدایا ہوا ہوں
میں روکے کسی کے بھلا رک سکوں گا
تصوّر کی رَو کا بہایا ہوا ہوں
قسم یاد کی اور قسم بھولنے...