ہٹ گئی خود، کہ ہٹا لی گئی چہرے سے نقاب
بات کچھ ہو، مگر اب تک وہ فراموش نہیں
کیا چھپائے گی، اثر! حُسن کے جلوے کو نقاب
برق بادل میں نہاں رہ کے بھی روپوش نہیں
محمد علی خاں اثر
حُسن اُدھر مست، اِدھرعشق کو کچُھ ہوش نہیں
اب کوئی شے نہیں، جو میکدہ بردوش نہیں
چشمِ مِیگوں نے کِیا ایک ہی جلوے میں خراب
کِس کو اب دیکھوں، کہ اپنا ہی مجھے ہوش نہیں
محمد علی خاں اثر
غزلِ
محمد علی خاں اثر
حُسن اُدھر مست، اِدھرعشق کو کچُھ ہوش نہیں
اب کوئی شے نہیں، جو میکدہ بردوش نہیں
چشمِ مِیگوں نے کِیا ایک ہی جلوے میں خراب
کِس کو اب دیکھوں، کہ اپنا ہی مجھے ہوش نہیں
ہٹ گئی خود، کہ ہٹا لی گئی چہرے سے نقاب
بات کچھ ہو، مگر اب تک وہ فراموش نہیں
ہجر ہے نام تصور کے فنا...
اُمیدِ سکوں رُخصت، تسکینِ دروں رُخصت
اب درد کی باری ہے، اب درد مزہ دے گا
اِک روز دلِ رہزن ، خود راہ نُما ہوگا
اِک روز یہی دُشمن منزِل کا پتہ دے گا
آزاد انصاری (سہارنپوری)
جو اُٹّھے ہیں تو گرمِ جُستجوئے دوست اٹّھے ہیں
جو بیٹھے ہیں، تو محوِ آرزوئے یار بیٹھے ہیں
مقامِ دستگیری ہے، کہ تیرے رہروِ اُلفت
ہزاروں جستجوئیں کرکے ہمّت ہار بیٹھے ہیں
آزاد انصاری (سہارنپوری)
کیا بنا دیگا نجانے تجھے بڑھتا ہُوا حُسن
نازسِکھلاتی گئی، جو بھی ادا آ کے گئی
آرزو مستئ شب بن کے رہا، دن کا خُمار
جُھومتی جب کوئی متوالی گھٹا آ کے گئی
آرزو لکھنوی