میرے تصوّرات کا سحر عجیب سحر ہے
دیکھ مِرے دلِ حزیں دیکھ ، وہ آ گیا کوئی
:)
سب کی طرف نگاہِ لُطف، بزم میں تھی رواں دواں
بالا مصرع میں ٹائپو ہے دیکھ لیں :):)
شبِ ہجراں تھی، میں تھا، اور تنہائی کا عالم تھا
غرض اُس شب عجب ہی بے سروپائی کا عالم تھا
گریباں غنچۂ گُل نے کِیا گُلشن میں سو ٹکرے
کہ ہر فندق پہ اُس کے طُرفہ رعنائی کا عالم تھا
غُلام ہمدانی مُصحفی
ذرا تُو دیکھ تو، صنّاع دستِ قدرت نے !
طِلِسْم خاک سے نقشے اُٹھائے ہیں کیا کیا
میں اُس کے حُسن کے عالم کی کیا کروں تعریف
نہ پُوچھ مجھ سے، کہ عالم دِکھائے ہیں کیا کیا
غُلام ہمدانی مُصحفی
کی آہ ہم نے، لیکن اُس نے اِدھر نہ دیکھا
اِس آہ میں تو ہم نے کچُھ بھی اثر نہ دیکھا
دو دو پہر تک اُس کے آگے کھڑا رہا میں !
پر اُس نے ضِد کے مارے، بھر کر نظر نہ دیکھا
غُلام ہمدانی مُصحفی
یہ کیا مُقام ہے؟ وہ نظارے کہاں گئے ؟
وہ پُھول کیا ہُوئے، وہ سِتارے کہاں گئے
باندھا تھا، کیا ہَوا پہ وہ اُمّید کا طِلِسْم
رنگینئ نظر کے غُبارے کہاں گئے
حفیظ جالندھری
غزلِ
مومن خاں مومن
شوخ کہتا ہے بے حیا جانا
دیکھو دشمن نے تم کو کیا جانا
شعلۂ دل کو، نازِ تابش ہے
اپنا جلوہ، ذرا دِکھا جانا
شوق نے دورباش اعدا کو
اُس کی محفل میں مرحبا جانا
اُس کے اُٹھتے ہی ہم جہاں سے اُٹھے
کیا قیامت ہے دل کا آ جانا
گھر میں خود رفتگی سے دُھوم مچی
کیونکہ ہو اُس تلک مِرا...