غزلِ
باقر زیدی
زخمِ دِل جب ہرا سا لگتا ہے
وہ ستمگر، بَھلا سا لگتا ہے
کل کہیں جانِ جاں نہ بن جائے
اجنبی ، آشنا سا لگتا ہے
کیا کریں اُس کی بے رُخی کا گِلہ
شہر بھر بے وفا سا لگتا ہے
اُس کے لہجے کا زہر تو دیکھو
آدمی دِل جلا سا لگتا ہے
وہ رگِ جاں سے بھی قریب سہی
پاس رہ کر، جُدا سا...
غزلِ
شوکت علی خاں فانی بدایونی
اُن کی کسی ادا پہ جفا کا گماں نہیں
شوخی ہے جو بسلسلۂ امتحاں نہیں
دیکھا نہیں وہ جلوہ جو دیکھا ہُوا سا ہے
اِس طرح وہ عیاں ہیں، کہ گویا عیاں نہیں
نا مہربانیوں کا گِلہ تم سے کیا کریں !
ہم بھی کچھ اپنے حال پہ اب مہرباں نہیں
اب تک لگاوٹیں ہی سہی، لاگ تو نہیں...