راتوں کو، سردیوں میں، آگ کے سامنے دبک کر بھیٹھنے اور چلغوزےکھانے
کا کیا مزہ تھا
پتہ نہیں اب بھی پاکستان میں کچھ اِس طرح کیا جاتا ہے یا نہیں
یہاں تو، چلغوزے اُلّو بولے ہی ہے
نکال اب تیر سینے سے، کہ جانِ پُرالم نکلے
جو یہ نکلے تو دل نکلے، جو دل نکلے تو دم نکلے
بُرا ہو اِس محبت کا، کہ اِس نے جان سے کھویا
لگا دل اُس ستمگر سے، اجل کا جس سے دم نکلے
داغ دہلوی
بہت خوب غزل کا انتخاب کیا سید صاحب تمام اشعار بہت دلپذیر ہیں
بہت سی داد :):)
مبارک ہو یہ گھرغیروں کو، تم کو، پاسبانوں کو
ہمارا کیا اِجارہ ہے ، نِکالا تم نے، ہم نکلے
گئے ہیں رنج و غم اے داغ ! بعدِ مرگ ساتھ اپنے
اگر نکلے، تو یہ اپنے رفیقانِ عدم نکلے
نکال اب تیر سینے سے، کہ جانِ پُرالم نکلے
جو یہ نکلے تو دل نکلے، جو دل نکلے تو دم نکلے
بُرا ہو اِس محبت کا، کہ اِس نے جان سے کھویا
لگا دل اُس ستمگر سے، اجل کا جس سے دم نکلے
سبحان الله
کیا ہی خوب ہے
تشکّر شیئر کرنے پر صاحب!
سید شہزاد ناصر صاحب !
انتخاب کی پذیرائی کے لئے ممنون ہوں
سِتاں = لینے والا
دونوں طرح سے لکھا جاتا ہے
جاں سِتاں اور جانْسِتاں
تشکّر توجہ کرنے اور دلانے پر
بہت خوش رہیں:)
مرزا اسداللہ خاں غالب
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں
دیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزُر پہ ہم، غیر ہمیں اُٹھائے کیوں
جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں...