ہر آشنا میں کہاں خُوئے محرمانہ وہ
کہ بے وفا تھا مگر، دوست تھا پرانا وہ
کہاں سے لائیں اب آنکھیں اُسے، کہ رکھتا تھا !
عداوتوں میں بھی انداز مُخلصانہ وہ
احمد فراز
بتائیں کیا، کہ بنایا ہے اُس نے کاجل سے
نظر سے دل میں اُترتا جو خال، کیا شے ہے
ہے مشتِ خاک میں جاری وہ رقصِ بے ہنگام
مقابلے میں کہ جس کے دھمال کیا شے ہے
شفیق خلش
شرح بے دردیِ حالات نہ ہونے پائی
اب کے بھی دل کی مدارات نہ ہونے پائی
پھر وہی وعدہ، جو اِقرار نہ ہونے پایا !
پھر وہی بات جو اثبات نہ ہونے پائی
فیض احمد فیض
نہیں آتی، تو یاد اُن کی مہینوں تک نہیں آتی !
مگر جب یاد آتے ہیں، تو اکثر یاد آتے ہیں
حقیقت کُھل گئی حسرت، تِرے ترکِ محبّت کی
تجھے تو، اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں
حسرت موہانی
ہیں سُرُورِ وصل سے لبریز مشتاقوں کے دل !
کر رہی ہیں، آرزوئیں سجدۂ شُکرانہ آج
حسرتیں دل کی ہُوئی جاتی ہیں، پامالِ نِشاط
ہے جو وہ جانِ تمنّا، رَونقِ کاشانہ آج
حسرت موہانی
غزلِ
پروین شاکر
وہی پرند کہ کل گوشہ گیر ایسا تھا
پلک جھپکتے، ہَوا میں لکیر ایسا تھا
اُسے تو، دوست کے ہاتھوں کی سُوجھ بوجھ ، بھی تھا
خطا نہ ہوتا کسی طور، تیر ایسا تھا
پیام دینے کا موسم، نہ ہم نوا پاکر !
پلٹ گیا دبے پاؤں ، سفیر ایسا تھا
کسی بھی شاخ کے پیچھے پناہ لیتی میں
مجھے وہ توڑ ہی...
وہ میرے پاؤں کو چُھونے جُھکا تھا جس لمحے
جو مانگتا اُسے دیتی، امیر ایسی تھی
کتر کے جال بھی صیّاد کی رضا کے بغیر
تمام عمر نہ اُڑتی، اسیر ایسی تھی
پروین شاکر