نغمۂ شوق مِرا، جُنْبشِ لب تک پہنچا
سِلسِلہ تیری تمنّا کا، طلب تک پہنچا
اور کیا اِس سے سوا حُسنِ طلب ہے، عاجز
حد سے گزرا بھی تو میں حدِ ادب تک پہنچا
مشتاق عاجز
گر آج اَوج پہ ہے طالعِ رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خُدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہدِ وفا اُستُوار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں
فیض احمد فیض
برف گرماتی رہی، دُھوپ اماں دیتی رہی !
دل کی نگری میں جو موسم تھے، تِرے موسم تھے
میری پونجی، مِرے اپنے ہی لہو کی تھی کشید
زندگی بھر کی کمائی، مِرے اپنے غم تھے
احمد ندیم قاسمی
یہ بدلتی قدریں ہی حاصلِ زمانہ ہیں
بار بار ماضی کے یوں ورَق نہ اُلٹا کر
حرف و لب سے ہوتا ہے کب اَدا ہر اِک مفہوُم
بےزبان آنکھوں کی گفتگُو بھی سمجھا کر
محسن بھوپالی
غزلِ
ماجد صدیقی
یہ حال ہے اب اُفق سے گھر تک
ہوتا نہیں چاند کا گزر تک
یہ آگ کہاں دبی پڑی تھی
پہنچی ہے جو اَب دل و جگر تک
دیکھا تو یہ دل جہاں نُما تھا
محدُود تھے فاصلے نظر تک
ہُوں راہئ منزلِ بقا اور
آغاز نہیں ہُوا سفر تک
تھے رات کے زخم یا سِتارے
بُجھ بُجھ کے جلے ہیں جو سحر...