جنھیں فیضانِ گلشن ہے، نہ عرفانِ بہاراں ہے
وہ پُھولوں کو نئے جذبات کی تعلیم دیتے ہیں
یہاں کلیاں مہکتی ہیں مگر خوشبُو نہیں ہوتی
شگوفے برملا آفات کی تعلیم دیتے ہیں
ساغر صدیقی
آباد ہم آشفتہ سروں سے نہیں مقتل
یہ رسم ابھی شہر میں زندہ ہے کہ تُم ہو
اے جانِِ فراز اتنی بھی توفیق کِسے تھی
ہم کو غمِ ہستی بھی گوارا ہے کہ تُم ہو
احمد فراز
مصرعوں میں گیسوِوں کی فصاحت کا بھر کے رنگ
اپنی ہر اِک غزل کو سند ہم نے کر دیا
تشبیہہ دے کے قامتِ جاناں کو سرو سے
اُونچا ہر ایک سرو کا، قد ہم نے کر دیا
سراج الدین ظفر
دل کے معاملات میں کیا دوسروں کو دخل
تائیدِ ایزدی بھی گوارا نہیں ہمیں
رندِ قدح گسار بھی ہیں، بُت پرست بھی
قدرت نے کس ہُنر سے سنوارا نہیں ہمیں
سراج الدین ظفر
زیست مُشکل ہے بہت غم کی مِلاوٹ کے بغیر
آ ہی جاتے ہیں کِسی طور یہ آ ہٹ کے بغیر
شب رہیں جن سے شبِ وصل، لگاوٹ کے بغیر
چہرے دیکھیں ہیں کبھی اُن کے سجاوٹ کے بغیر
وہ، جو مجبوُریِ حالات سے بِک جاتے ہیں
گھر پُہنچتے ہیں تو سہمے ہُوئے آہٹ کے بغیر
شفیقق خلش
توبہ کِیے زمانہ ہُوا، لیکن آج تک
جب شام ہو تو کچھ بھی بنائے نہیں بنے
جاتے تو ہیں صنم کدے سے حضرتِ خمار
لیکن خُدا کرے کہ، بِن آئے نہیں بنے
خُمار بارہ بنکوی
علامہ کی بنائی غزل خوش نظر ہے۔
دو مصرعے صحیح کرکے یوں لکھنے ہوں گے اِس میں صاحب :)
فرنگ رہگُزرِ سیلِ بے پناہ میں ہے
اور
مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادۂ ناب
داد، محنت اور دیدہ زیبی پر
بہت خوش رہیں
ہر روز، روزِ عید تھی، ہر شب، شبِ برات
وہ دن کہاں گئے، وہ زمانہ کدھر گیا
جو پیکرِ وفا تھے، سراپا خُلوص تھے!
وہ لوگ کیا ہُوئے، وہ زمانہ کدھر گیا
مولانا شوق دہلوی