بیت گیا ہنگامِ قیامت زورِ قیامت آج بھی ہے
ترکِ تعلق کام نہ آیا، اُن سے محبت آج بھی ہے
سخت سہی ہستی کے مراحل عشق میں راحت آج بھی ہے
اے غمِ جاناں ! ہو نہ گریزاں، تیری ضرورت آج بھی ہے
گلشنِ حسنِ یار میں چلیے، ہے جو تلاشِ کیف و سکوں
لاکھ ہے برہم نظمِ دو عالم، زلف میں نکہت آج بھی ہے
وقت برا...