دل سے لے کر آنکھ تک اک موجِ خوں لانے لگی
درد کی لذت انوکھا ساسکوں لانے لگی
میں نے دارا و سکندر کو کیا زیرِ قدم
میں جمالِ حور کو خاطر میں کیوں لانے لگی
سبزہ و گل کھل رہے ہیں ابر ہےپانی بھی ہے
میں سلگتے دشت میں کیسا جنوں لانے لگی
اس کے بارے کہہ رہی ہوں جو بھی دل میں ہے مرے
میں گلی کے بیچ شورِ...