نتائج تلاش

  1. محمد شکیل خورشید

    مری کہانی کے باب سارے- ایک پرانی غزل تصحیح کے بعد

    یہ غزل نوے کی دہائی میں لکھی تھی۔ محفل میں شمولیت کے ابتدائی دنوں میں اصلاح سخن میں پیش کی تو کئی اغلاط سامنے آئیں۔ اب ان کی درستی کرکے یہاں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ محترم الف عین اور دیگر اساتذہ و احباب کی نذر رفاقتوں کے عذاب سارے ،گئی رتوں کے حساب سارے تمہارے ہی نام منتسب ہیں مری...
  2. محمد شکیل خورشید

    ہائے میں اَس کا منتظَر ہی نہیں- ایک نئی غزل

    میری فریاد میں اثر ہی نہیں ہائے میں اَس کا منتظَر ہی نہیں دل میں کیسے مکین ہو کوئی اس مکاں میں تو کوئی در ہی نہیں راستے اور بھی ہیں دنیا میں اک فقط تیری رہگزر ہی نہیں سانحہ اک گزر گیا ہے یہاں جن پہ گزرا انہیں خبر ہی نہیں اور بھی ہیں مقام سجدے کے اے بتِ ناز تیرا در ہی نہیں کس کی باتوں کا اعتبار...
  3. محمد شکیل خورشید

    اہلیہ کی چھٹی برسی پر

    کاش کاش نہ وہ دن آیا ہوتا کاش نہ اس کو گنوایا ہوتا اور تو سکھ پائے ہیں میں نے کاش نہ یہ دکھ پایا ہوتا 6 جنوری 2019 کو شریکِ حیات داغِ مفارقت دے گئیں تھیں۔ 2022 میں عقدِ ثانی کے باوجود دکھ اپنی جگہ برقرار ہے ۔
  4. محمد شکیل خورشید

    چاند مانگو تو مل نہیں جاتا

    ایک تازہ غزل پیشِ خدمت ہے اساتذہ و احباب کے ذوق کی نذر چاند مانگو تو مل نہیں جاتا زخم خود سے ہی سل نہیں جاتا عارضی سا سکوں تو ملتا ہے غم مگر مستقل نہیں جاتا مرحلے لاکھ پیش آتے ہیں پھول یک دم ہی کھل نہیں جاتا ساتھ دیتا ہے غم گسار کوئی خود بخود درد دل نہیں جاتا کام کرتا ہے تیشہِ...
  5. محمد شکیل خورشید

    بٹ گیا ہوں میں کتنے خانوں میں- تازہ غزل

    ایک تازہ غزل پیشِ خدمت ہے بٹ گیا ہوں میں کتنے خانوں میں گھر میں دفتر میں اور دکانوں میں یادِ ماضی امیدِ مستقبل جی رہا ہوں کئی زمانوں میں کیوں زمانے میں آشکار ہوئی بات اک تھی جو رازدانوں میں ختم ہوگی مری اماوس کیا؟ چاند ابھریں گے آسمانوں میں ایسے مشکوک ہو کے تکتے ہو تم بھی شامل ہو بد گمانوں...
  6. محمد شکیل خورشید

    اور کیا ہے غزل بس ان کا خیال- اک نئی کاوش

    رمزِ ہجرو وصال و حسن و جمال اور کیا ہے غزل بس ان کا خیال آ کہ مل کر گزار لیں ان کو بچ رہے ہیں جو چند ماہ و سال آؤ جی لیں یہ لمحہِ موجود بھول کر دو گھڑی کو فکرِ مآل اک تعلق نبھائے جاتے ہیں کون پالے یہ عاشقی کا وبال کٹ گئی عمر کن سرابوں میں بس اسی بات کا ہے دل میں ملال ایک بے چینی ہے جو جاتی...
  7. محمد شکیل خورشید

    ٹانگ کی بوٹی

    ٹانگ کی بوٹی "یہ مرغی صبح تک بچنے والی نہیں، مولوی صاحب سے چھری پھروا لو" پڑوس والے قاضی صاحب نے بیمار مرغی کی حالت دیکھتے ہوئے کہا تو کُکو کو بیک وقت مرغی کی ممکنہ فوتگی پر افسوس اور گھر میں مرغی کا سالن پکنے کی امید پر ایک گونہ خوشی بھی محسوس ہوئی۔ لاہور کے مضافاتی علاقے میں رہن سہن شہری اور...
  8. محمد شکیل خورشید

    یہ جو آنکھوں میں خواب ہوتے ہیں - تازہ کلام

    سوچو کتنے عذاب ہوتے ہیں یہ جو آنکھوں میں خواب ہوتے ہیں عشق میں سوہنیوں کی قسمت میں آگہی کے چناب ہوتے ہیں ان سے ملنا اگر تو پڑھ لینا بعض چہرے کتاب ہوتے ہیں یونہی لفظوں سے بو نہیں آتی بعض لہجے گلاب ہوتے ہیں اے علیم و خبیر برزخ میں کیوں سوال و جواب ہوتے ہیں سچ کے اور آگہی کے بیچوں بیچ جانے...
  9. محمد شکیل خورشید

    کینوس جا بجا پھٹا ہوا تھا - ایک نئی کاوش

    وقت کی دھول میں اٹا ہوا تھا کینوس جا بجا پھٹا ہوا تھا گھر کے اندر نگاہ جاتی تھی پردہ دروازے سے ہٹا ہوا تھا وہ بھی یکسو نہ تھا محبت میں دھیان میرا بھی کچھ بٹا ہوا تھا دیکھتا تھا میں راستے گم ہیں لوگ کہتے ہیں میں ڈٹا ہوا تھا ظلمتِ شہر بڑھتی جاتی تھی اور مرا حوصلہ گھٹا ہوا تھا تیز تھی رخشِ عمر...
  10. محمد شکیل خورشید

    تازہ کاوش: جو ہو سکے تو مری رات کو سحر دے دے

    ذرا سی دیر کو اس درد سے مفر دے دے جو ہو سکے تو مری رات کو سحر دے دے نہ ہاتھ مجھ سے دعا کے لئے اٹھے لیکن خبیر ہے تو مری آہ میں اثر دے دے خوشی سے ساتھ ترے صبحِ نو ، سفر پہ چلوں تو اپنا ہاتھ مرے ہاتھ میں اگر دے دے مری نوا میں نہیں سوزکی وہ گہرائی جو میرے درد کو اک آہِ معتبر دےدے میں جانتا...
  11. محمد شکیل خورشید

    تازہ غزل

    کہانی اک سنانی ہے جو بیتی ہے بتانی ہے صحیفہ درد پیہم کا نہیں لکھا ، زبانی ہے ضروری بات کرنی تھی اگرچہ کچھ پرانی ہے سرِ بازار بیٹھے ہیں فقط اتنی کہانی ہے مقدر کے مزاروں پر نئی چادر بچھانی ہے کسے سمجھائیں گے جا کر بڑی مبہم کہانی ہے محبت کر تو بیٹھے ہیں کہو کیسے نبھانی ہے بڑی تاریک ہے یہ شب...
  12. محمد شکیل خورشید

    نئی زندگی سے متعلق ایک غزل

    صبحِ نو کی نوید ہوتی ہے جب ہمیں ان کی دید ہوتی ہے ایک گونہ سکون ملتا ہے جب بھی گفت و شنید ہوتی ہے اجنبیت کہاں رہی اب تو روز ملتے ہیں عید ہوتی ہے مے سے مطلب ہمیں ، ہماری تو اس نظر سے کشید ہوتی ہے ہم بھی بے اختیار ہیں کہ شکیل دل کو ان سے امید ہوتی ہے ہر شعر کے پہلے لفظ کو ملایا جائے تو زوجہ...
  13. محمد شکیل خورشید

    یونہی تخلیقِ فن نہیں ہوتی

    دور دل کی چبھن نہیں ہوتی گو جبیں پر شکن نہیں ہوتی کچھ طبیعت میں میل ہوتا ہے بے سبب یہ لگن نہیں ہوتی مصلحت کوش ہے یہ شہر یہاں رسمِ دار و رسن نہیں ہوتی یہ تو دوری میں سانس رکتی ہے قربتوں میں گھٹن نہیں ہوتی کیا کہیں کیا عذاب ہیں اس میں یونہی تخلیقِ فن نہیں ہوتی کہتے لہجہ نڈھال ہوتا ہے بات میں...
  14. محمد شکیل خورشید

    غزل: ۔۔۔میں نہیں جانتا

    ایک تازہ غزل احباب کے ذوق کی نذر میں نہیں جانتا میں نہیں جانتا دل نہیں مانتا میں نہیں جانتا اس زمانے میں مکر و فریب و دغا کیسے پہچانتا میں نہیں جانتا کیا ہے منشا مری کیا مری ہے رضا دل ہے کیا ٹھانتا میں نہیں جانتا کون خوشیاں زمانے میں بانٹے پھرے سنت یا سانتا میں نہیں جانتا مصلحت کوشی شہرِ...
  15. محمد شکیل خورشید

    غزل: عرضِ احوال کی ہے تھوڑی سی

    ایک تازہ غزل احباب کی نذر عرضِ احوال کی ہے تھوڑی سی انسیت جب بڑھی ہے تھوڑی سی اب تسلی ہوئی ہے تھوڑی سی بات آگے چلی ہے تھوڑی سی پھر تری یاد کے دریچے سے زندگی دیکھ لی ہے تھوڑی سی ان سے کچھ عشق وِشق تھوڑا ہے یونہی دیوانگی ہے تھوڑی سی چار پل ان کے ساتھ جینے کو زندگی مانگ لی ہے تھوڑی سی شہر...
  16. محمد شکیل خورشید

    گھر بنا تھا کبھی مکان میں کیا

    استاد محترم الف عین کی ہدایت پر کچھ طبع آزمائی کی ہے۔ گو جناب سید عاطف علی اور جناب عرفان علوی کے کلام کے آگے چراغ کو سورج دکھانے والی بات ہے بھید ہے اتنی آن بان میں کیا تم کو شک ہے تمہاری شان میں کیا سارا جنگل ہے سانس روکے ہوئے ہے شکاری کوئی مچان میں کیا یہ جو رستہ بنا ہے لوگوں کا ٹوٹی...
  17. محمد شکیل خورشید

    گھر کا نام سرائے رکھنا

    دل میں درد چھپائے رکھنا آس امید لگائے رکھنا کیسے سیکھ لیا ہے تم نے یہ مسکان سجائے رکھنا مشکل ہو جاتا ہے بھرم کو ساری عمر بنائے رکھنا رات کی تاریکی گہری ہے سوچ کا دیہ جلائے رکھنا یاد رہے دنیا رستہ ہے گھر کا نام سرائے رکھنا کون شکیل تمہیں سکھلائے ناتے رشتے نبھائے رکھنا چند سال پرانی ایک...
  18. محمد شکیل خورشید

    غزل: کچھ سفر زندگی کا باقی ہے

    داغ دل کی لگی کا باقی ہے درد اک بے کلی کا باقی ہے ہوگئے ختم یوں تو سارے مرض روگ دیوانگی کا باقی ہے باقی رستے سبھی تمام ہوئے پھیر اک اُس گلی کا باقی ہے نسلِ نو کو نوید ہو کہ ابھی قرض پچھلی صدی کا باقی ہے اور باقی نہیں ہے کوئی کمال اک ہنر بندگی کا باقی ہے گرچہ روندی گئی کلاہِ فقیر جاہ اس...
  19. محمد شکیل خورشید

    دلِ مضطر تجھے کس طور سنبھالا جائے

    کس طرح درد تری خو سے نکالا جائے دلِ مضطر تجھے کس طور سنبھالا جائے پھر سے یادوں کو تری روپ نیا پہناؤں پھر ترا درد نئے ڈھنگ سے پالا جائے کوئی بت ہے کہ خدا ہے کہ مقدس گائے اب یہ ابہام نصابوں سے نکالا جائے مذہب و نسبت و اقدار تو پہچانے گئے نئے سانچے میں نیا بت کوئی ڈھالا جائے ٹوٹنا اس سے تعلق...
  20. محمد شکیل خورشید

    اک تازہ غزل

    خواہشِ واہ واہ کس کو ہے فقر میں فکرِ جاہ کس کو ہے سانس لینا تو جبرِ قدرت ہے ورنہ جینے کی چاہ کس کو ہے ایک مسکان ظاہری سی بس ورنہ دکھ سے پناہ کس کو ہے کفر ہے نا امیدی سچ لیکن آخر اس کا گناہ کس کو ہے اک جلی لاش سینکڑوں کا ہجوم جانے یہ انتباہ کس کو ہے اک اندھیرا ہے چار سمت شکیل سوجھتی اس میں...
Top