یا تو مرا خمیر کسی شان سے اُٹھا
یا پِھر یہ اپنا بوجھ مری جان سے اُٹھا
یہ پر یقین کے تو ملے بعد میں مُجھے
اڑنے کا شوق تو فقط امکان سے اُٹھا
ورنہ اُٹھا کے پھینک نہ دوں میں اِسے کہیں
سُن دیکھ اپنا آئینہ ایمان سے، اُٹھا
سارے ستم گزار مگر اک وقار سے
جتنے جفا کے ہاتھ اُٹھا مان سے اُٹھا...
اُس نے اُٹھا کے پھینک دیا چاک سے پرے
کچھ بن رہا ہوں اور ہی اب خاک سے پرے
کچھ اور بات ہے سرِ اوراقِ زندگی
اور بات کوئی اور ہے اوراق سے پرے
اِک روز میں بھی تو تُجھے حیرت زدہ کروں
اِک روز لے کے جا مُجھے اِدراک سے پرے
دراصل جِس کا عکس ہے یہ ساری کائنات
رکھا ہوا ہے آئینہ افلاک سے پرے...
پردہ اُٹھا کے حُسنِ ازل آئے تو بنے
جو دیکھتا ہے مُجھ کو بھی دکھلائے تو بنے
خورشیدِ جان آج نرالا ہی کچھ کرے
تاروں کے بیچ گھوم کے کھوجائے تو بنے
جب بھی پلٹ کے دیکھا ہے پتھرا گیا ہوں میں
اس بار آپ سامری پتھرائے تو بنے
اے کاش مرے پاؤں میں کانٹے ہی اُگ رہیں
یہ دشت...
اتنا دل گیر ہو کے جانا ہے
آنکھ سے نیر ہو کے جانا ہے
رنگ لمحوں کو کیسے تھامتے ہیں
آج تصویر ہو کے جانا ہے
آدمی کِتنا ٹوٹ جاتا ہے
میں نے تعمیر ہو کے جانا ہے
لفظ مضمون میں ڈھلا کیسے
خود پہ تحریر ہو کے جانا ہے
رُتبہ ِ دشت و آبلہ پائی
پاء بازنجیر ہو کے...