اجڑ گئی خواب کی بستی بنجر زیست کا عالم
آنکھوں سے بہاروں کے گئے موسم وہ یاد آئے۔
دلِ مردہ، شکستہ روح، نگاہ نازک، لہو آتش
تنِ گھایل سوئے کعبہ، چلے ہیں ہم وہ یاد آئے۔
خیالِ یار سے کہہ دو ابھی تو وقت باقی ہے
چلے جانا نہ آنا پھر ابھی ہے دم وہ یاد آئے۔
کوئی بھی لگائے جب تماشائے صدائے غم
سرِ محفل...
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شبِ ہجراں منائی جب، تو دم بہ دم وہ یاد آئے
ملا کے ہاتھ دردوں سے ملے جب غم وہ یاد آئے
ہزاروں تیر تھے برسے ہمارے دل کے گلشن میں
پرندوں اور گلوں نے جب کیا ماتم وہ یاد آئے۔
رخِ زیبا ، رخِ روشن ، سیاہ زلفیں، معطر جسم
ملا کوئی بھی ایسا جب ہمیں ہمدم وہ یاد آئے۔...
تھک گئے ہو تو تھکن چھوڑ کے جا سکتے ہو
تم مجھے واقعتاً چھوڑ کے جا سکتے ہو
ہم درختوں کو کہاں آتا ہے ہجرت کرنا
تم پرندے ہو وطن چھوڑ کے جا سکتے ہو
تم سے باتوں میں کچھ اس درجہ مگن ہوتا ہوں
مجھ کو باتوں میں مگن چھوڑ کے جا سکتے ہو
جانے والے سے سوالات نہیں ہوتے میاں
تم یہاں اپنا بدن چھوڑ کے جا سکتے...