سفر پہ بھیج کے اسباب مار ڈالے گا
وُہ آنکھیں بانٹے گا اور خواب مار ڈالے گا
بھنور، سراب، بگولے،چراغ، پھول، ہوا
مجھے یہ حلقہءِ احباب مار ڈالے گا
بچا کے دھوپ سے جن کو جوان ہم نے کیا
اب ان درختوں کو سیلاب مار ڈالے گا
تم آ تو جاؤ گے لیکن تمھارے آنے تک
مجھے مرا دل بیتاب مار ڈالے گا...