لفظوں سے چھاؤں وضع کی سطروں کو سائباں کیا
جیسے بھی ہو سکا، بسر وقتِ زوالِ جاں کیا
دل کو کسی کا سامنا کرنے کی تاب ہی نہ تھی
اچھا کیا کہ آنکھ نے آنسو کو درمیاں کیا
جتنا میں اپنے پاس تھا، اُتنا میں اپنے پاس ہوں
باقی کا اس سے پوچھیے، اس نے مجھے کہاں کیا
جس پہ خفا ہوئے ہو تم،تم نے سجھائی تھی وہ بات...