جب ہونٹوں پہ پیار ترانے آجاتے ہیں
جیون رُت پہ روپ سہانےآجاتے ہیں
ہم تو پھولوں کی خُشبو سے اُکتا کر
تیرے بدن کی باس چرانے آجا تے ہیں
اکثر تیرے مد ہوشوں سے مل کر بھی
کُچھ لوگوں کے ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں
پل بھر کو تم دل سے بھول بھی جاتے ہو
اس بستی میں بھی ویرانے آجاتے ہیں
جب سجتی ہے...
یہ دل تو ابھی تک ہے تمہارا ،اُسے کہنا
جاں ہار گئی پیار نہ ہارا اُسے کہنا
سوچوں سے ابھی تک ترا پیراہنِ الفت
اترا، نہ کبھی میں نے اُتارا اُسے کہنا
خوابوں میں وہی ہے تری مہتاب سی صورت
آنکھوں میں وہی اشک ستارا اُسے کہنا
مجھ کو تری یادوں کے بھنور میں بھی سکوں ہے
مانگا ہی نہیں میں نے کنارا، اُسے...
تم ہارنے کا سوچ کے میداں میں آئے ہو
اب میں بھی جیت جائوں ےو میری شکست ہے
پستوں میں ہم بلند ہُوئے بھی تو کیا ہُوئے
ہم سے بلند وہ جو بلندوں میں پست ہے
شاعر ۔۔۔ نجم الحسن کاظمی
لگتا تھا کہ خُورشیدِقیامت نکل آیا
یہ داغِ جگر تابِ محبت نکل آیا
وہ شوخ کہ جو خود کو بچاتا پھرا مجھ سے
تقدیر ، کہ میں اُسکی ضرورت نکل آیا
اُس چہرے کے اوراق پہ ڈالیں جونگاہیں
آواز سے اندازِ تلاوت نکل آیا