دھوپ میں ہم جو کھڑے رہتے ہیں
یار سائے میں پڑے رہتے ہیں
اب بھی زندہ نہ ہو تُو مجھ میں کہیں
کان آہٹ پہ کھڑے رہتے ہیں
اُونگھ آئے توبسا لیتا ہوں گھر میں
خواب رستے میں پڑے رہتے ہیں
زخم دشنوں کے تو بھر جاتے ہیں
تیر لہجوں کے گڑے رہتے ہیں
درد خوشیوں سے تصادم کے لیے
دل کی چوکھٹ پہ کھڑے رہتے ہیں
نیچےوالے اشعار فاعلاتن مفاعلن فعلن پہ آتے ہیں لیکن آخری شعر یا آخری دو مصرعے اس بحر میں کیسے آیئں گے؟
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے
ناہر سنگھ کے خالق ۔ عبیداللہ بیگ
از : محمد حفیظ الرحمٰن
عبیداللہ بیگ صاحب کو کون نہیں جانتا۔ وہ ٹی وی پر اپنے پروگرام کسوٹی کے لئے بے حد مشہور تھے۔ یہ پروگرام بہت مقبول ہوا تھا۔ افتخار عارف صاحب ان کے ساتھی ہوتے تھے اور قریش پور صاحب میزبان ہوا کرتے...