نیندوں کا احتساب ہُوا یا نہیں ہُوا
سچا کسی کا خواب ہُوا یا نہیں ہُوا
بے داغ کوئی شکل نظر آئی یا نہیں
آئینہ بے نقاب ہُوا یا نہیں ہُوا
لائی گئیں کٹہرے میں کتنی عدالتیں
قانون لاجواب ہُوا یا نہیں ہُوا
جو آج تک کیا گیا احسان کی طرح
اس ظلم کا حساب ہُوا یا نہیں ہُوا
اُس کے بھی دل میں آگ لگی یا...
اک نقشِ سطحِ آبِ رواں ہے یہ زندگی
اے موج ِتیز گام! کہاں ہے یہ زندگی
کل تک تھی اپنے آپ پہ نازاں یہ زندگی
کیوں آج خود پہ نوحہ کناں ہے یہ زندگی
شعلے میں شمع کے جو مسلسل تھی اک صدا
پروانے کہہ رہے تھے یہاں ہے یہ زندگی
جن کے بیاں کو قفل پڑے ہیں زبان پہ
ان کہنہ حسرتوں کا نشاں ہے یہ زندگی
کروبیءاجل...
راز کی باتیں لکھیں اور خط کھلا رہنے دیا
جانے کیوں رسوائیوں کا سلسلہ رہنے دیا
عمر بھر مرے ساتھ رہ کر وہ نہ سمجھا دل کی بات
دو دلوں کے درمیاں اک فاصلہ رہنے دیا
اپنی فطرت وہ بدل پایا نہ اس کے با وجود
ختم کی رنجش مگر پھر بھی گلہ رہنے دیا
میں سمجھتا تھا خوشی دے گی مجھے صابر فریب
اس لیے میں نے غموں...
دیکھا ابھی سے جان بچانے پہ آ گئے
چھوڑوں گا مَیں نہیں جو نشانے پہ آ گئے
چُپ چاپ جو کھڑے ھیں شجر اپنے یار ھیں
سوچو !! اگر یہ شور مچانے پہ آ گئے
قہّار بن گئے ھیں ضرورت کے واسطے
رحمٰن اور رحیم ۔۔۔ ڈرانے پہ آ گئے
خواب و خیال جانے پہ آمادہ ھی نہیں
کِن قیدیوں کو تُم سے چُھڑانے پہ آ گئے
یہ...
تازہ غزل احباب کی نذر
تیرے دل سے اتر چکا ہوں میں
ایسا لگتا ہے مر چکا ہوں میں
اب مجھے کس طرح سمیٹو گے
ریزہ ریزہ بکھر چکا ہوں میں
تیری بے اعتنائیوں کے سبب
ظرف کہتا ہے بھر چکا ہوں میں
تجھ کو ساری دعائیں لگ جائیں
اب تو جینے سے ڈر چکا ہوں میں
ایک غم اور منتظر ہے مرا
ایک غم سے گزر چکا ہوں میں...
کیسے دکھائے دن دلِ خانہ خراب نے
آنکھوں کو گھر بنا لیا اِک جُوئے آب نے
مستی نگاہِ یار کی دیکھی تو شرم سے
بوتل میں منہ چھپا لیا اپنا شراب نے
منکر نکیر آئے ہیں ، چھیڑا ہے ذکرِ یار
بزمِ سخن سجائی سوال و جواب نے
قُدس و عُلُوّ و علم و ظہور و غیاب کے
کتنے نقاب اوڑھے ہیں اِک بے نقاب نے
پلٹا ہے...
کل نذیر بھائی نے امیر مینائی کی مشہور زمانہ غزل "جب سے بلبل تُو نے دو تنکے لیے" ارسال کی تو مجھے خیال آیا کہ اسی زمین میں امیر مینائی کی ایک اور غزل بھی موجود ہے۔ سو وہ غزل بھی پیش ہے:
تند مے اور ایسے کمسِن کے لیے
ساقیا! ہلکی سی لا اِن کے لیے
حور یا رب ہے جو مومن کے لیے
بھیج دے دنیا میں دو دن...