جہاں شفاف ندی بہہ رہی ہے
جہاں چھوٹی سی ایک کشتی کھڑی ہے
جہاں سُورج مُکھی کا پُھول اُگا ہے
پہاڑی پر جہاں سارس کھڑا ہے
جہاں اُونچے درختوں کی قطاریں
دکھاتی ہیں کھڑی اپنی بہاریں
جہاں بوڑھا سا اک کیکر کھڑا ہے
جہاں جھانپل کا ننھا گھونسلہ ہے
جہاں کرتی ہیں پریاں سیر آ کر
چلی جاتی ہیں ندی میں نہا کر...
ہم تو شاعر ہیں ہم سچ نہیں بولتے
جان جاں! سچ پہ کیوں اتنا اصرار ہے
سچ کی عظمت سے کب ہم کو انکار ہے
ہم بھی شاعر ہیں آخر اُسی قوم کے
جس کا ہر فرد بکنے پہ تیار ہے
ہم ہیں لفظوں کے تاجر، یہ بازار ہے
سچ تو یہ ہے گزرتے ہوئے وقت سے
فائدہ جو اٹھا لے وہ فنکار ہے
ہم نہ سقراط ہیں، ہم نہ منصور ہیں
ہم سے سچ کی...