یوں ساغرِ حیات کا اکرام کیا ہے
ہر گھونٹ نذرِ تلخئِ ایّام کیا ہے
جب کاسہءِ خرد میں نہ پایا سکوں کہیں
دامن کو ترے بے خودی میں تھام لیا ہے
پھولوں نے چُرائی ترے چہرے سے تازگی
کلیوں نے بھی ہولے سے ترا نام لیا ہے
بادل، ستارے، وقت، وہیں رک گئے اکثر
نازک سا ہاتھ جب بھی ترا تھام لیا ہے...