ابر و باراں ہی نہ تھے بحر کی یورش میں شریک
دکھ تو یہ ہے کہ ہے ملاح بھی سازش میں شریک
تا ہمیں ترکِ تعلق کا بہت رنج نہ ہو
آؤ تم کو بھی کریں ہم اِسی کوشش میں شریک
اک تو وہ جسم طلسمات کا گھر لگتا ہے
اس پہ ہے نیتِ خیاط بھی پوشش میں شریک
ساری خلقت چلی آتی ہے اُسے دیکھنے کو
کیا کرے دل بھی کہ دنیا ہے...
ترا قرب تھا کہ فراق تھا وہی تیری جلوہ گری رہی
کہ جو روشنی ترے جسم کی تھی مرے بدن میں بھری رہی
ترے شہر میں چلا تھا جب تو کوئی بھی ساتھ نہ تھا مرے
تو میں کس سے محوِ کلام تھا؟ تو یہ کس کی ہمسفری رہی؟
مجھے اپنے آپ پہ مان تھا کہ نہ جب تلک ترا دھیان تھا
تو مثال تھی مری آگہی تو کمال بے خبری رہی...
تُو کہ شمعِ شامِ فراق ہے دلِ نامراد سنبھل کے رو
یہ کسی کی بزمِ نشاط ہے یہاں قطرہ قطرہ پگھل کے رو
کوئی آشنا ہو کہ غیر ہو نہ کسی سے حال بیان کر
یہ کٹھور لوگوں کا شہر ہے کہیں دُور پار نکل کے رو
کسے کیا پڑی سرِ انجمن کہ سُنے وہ تیری کہانیاں
جہاں کوئی تجھ سے بچھڑ گیا اُسی رہگزار پہ چل کے رو
یہاں...
یہ تیری قلمرو ہے بتا پیرِ خرابات
غالب سا بھی کوئی دیکھا ہے میرِ خرابات
وہ رندِ بلا نوش و تہی دست و سدا مست
آزاد مگر بستۂ زنجیرِ خرابات
اشعار کہ جیسے ہو صنم خانۂ آذر
الفاظ کہ جیسے ہوں تصاویرِ خرابات
وہ نغمہ سرا ہو تو کریں وجد ملائک
یہ قلقلِ مینا ہے کہ تکبیرِ خرابات
اے شیخ یہ ڈیڑھ اینٹ کی...
میں یہاں "احمد فراز" کی آخری کتاب "اے عشق جنوں پیشہ" ٹائپ کر کے پوسٹ کیا کروں گا، پہلے ورڈ فائل میں کررہا تھا لیکن فائل کرپٹ ہونے کی وجہ سے مجھے کام دوبارہ کرنا پڑا۔
لہٰذا اس سے زیادہ محفوظ جگہ کوئی نظر نہیں آتی۔
نوٹ:تبصروہ جات کے لئے یہ دھاگہ استعمال کریں۔
استادِ محترم الف عین صاحب
مقدس آپی...
ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے
جس طرف جائیے اک انجمن آراستہ ہے
یوں پھریں باغ میں بالا قد و قامت والے
تو کہے سر و و سمن سے چمن آراستہ ہے
خوش ہو اے دل کہ ترے ذوقِ اسیری کے لئے
کاکلِ یار شکن در شکن آراستہ ہے
کون آج آیا ہے مقتل میں مسیحا کی طرح
تختۂ دار سجا ہے رسن آراستہ ہے
شہرِ دل میں...
اک ذرا سُن تو مہکتے ہوئے گیسو والی
راہ میں کون دُکاں پڑتی ہے خوشبو والی
پھر یہ کیوں ہے کہ مجھے دیکھ کے رم خوردہ ہے
تیری آنکھوں میں تو وحشت نہیں آہو والی
دیکھنے میں تو ہیں سادہ سے خدوخال مگر
لوگ کہتے ہیں کوئی بات ہے جادو والی
گفتگو ایسی کہ بس دل میں اُترتی جائے
نہ تو پُرپیچ نہ تہہ...
قتلِ عشاق میں اب عذر ہے کیا بسم اللہ
سب گنہگار ہیں راضی بہ رضا بسم اللہ
میکدے کے ادب آداب سبھی جانتے ہیں
جام ٹکرائے تو واعظ نے کہا بسم اللہ
ہم نے کی رنجشِ بے جا کی شکایت تم سے
اب تمہیں بھی ہے اگر کوئی گِلا بسم اللہ
بتِ کافر ہو تو ایسا کہ سرِ راہگزار
پاؤں رکھے تو کہے خلقِ خدا بسم...
غزل جو سادہ دل ہوں بڑی مشکلوں میں ہوتے ہیں
کہ دوستوں میں ،کبھی دشمنوں میں ہوتے
ہوا کے رخ پہ کبھی بادباں نہیں رکھتے
بلا کے حوصلے دریا دلوں میں ہوتے ہیں
پلٹ کے دیکھ ذرا اپنے رہ نوردوں کو
جو منزلوں پہ نہ ہوں راستوں میں ہوتے ہیں
پیمبروں کا نسب...
قیمت ہے ہر کِسی کی دُکاں پر لگی ہوئی
بِکنے کو ایک بھِیڑ ہے باہر لگی ہوئی
غافل نہ جان اُسے کہ تغافل کے باوجود
اُس کی نظر ہے سب پہ برابر لگی ہوئی
خوش ہو نہ سر نوِشتۂ مقتل کو دیکھ کر
فہرست ایک اور ہے اندر لگی ہوئی
ق
کس کا گماشتہ ہے امیرِ سپاہِ شہر
کن معرکوں میں ہے صفِ لشکر لگی ہوئی
برباد کر کے...
" غزل"
گماں یہی ہے کہ دل خود ادھر کو جاتا ہے
سو شک کا فائدہ اس کی نظر کو جاتا ہے
یہ دل کا درد تو عمروں کا روگ ہے پیارے
سو جائے بھی تو پہر دو پہر جاتا ہے
یہ حال ہے کہ کئی راستے ہیں پیش نظر
مگر خیال تری رہ گزر کو جاتا ہے
تو...
کوئی سخن برائے قوافی نہیں کہا
اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں کہا
ہم اہلِ صدق جرم پہ نادم نہیں رہے
مر مِٹ گئے پہ حرفِ معافی نہیں کہا
آشوبِ زندگی تھا کہ اندوہِ عاشقی
اک غم کو دوسرے کی تلافی نہیں کہا
ہم نے خیالِ یار میں کیا کیا غزل کہی
پھر بھی یہی گُماں ہے کہ کافی نہیں کہا
بس یہ کہا تھا دل...
"غزل"
نبھاتا کون ہے قول و قسم تم جانتے تھے
یہ قربت عارضی ہے کم سے کم تم جانتے تھے
رہا ہے کون کس کے ساتھ انجام سفر تک
یہ آغاز مسافت ہی سے ہم تم جانتے تھے
مزاجوں میں اتر جاتی ہے تبدیلی مری جاں
سو رہ سکتے تھے کیسے ہم بہم تم جانتے تھے
سو اب...
باغباں ڈال رہا ہے گُل و گلزار پہ خاک
اب بھی میں چپ ہوں تو مجھ پر مرے اشعار پہ خاک
کیسے بے آبلہ پا بادیہ پیما ہیں کہ ہے
قطرۂ خوں کے بجائے سر ہر خار پہ خاک
سرِ دربار ستادہ ہیں پئے منصب و جاہ
تُف بر اہلِ سخن و خلعت و دستار پہ خاک
آ کے دیکھو تو سہی شہر مرا کیسا ہے
سبزہ و گل کی جگہ ہے در...
اے عشق جنوں پیشہ
عمروں کی مسافت سے
تھک ہار گئے آخر
سب عہد اذیّت کے
بیکار گئے آخر
اغیار کی بانہوں میں
دلدار گئے آخر
رو کر تری قسمت کو
غمخوار گئے آخر
یوں زندگی گزرے گی
تا چند وفا کیشا
وہ وادیء الفت تھی
یا کوہِ الَم جو تھا
سب مدِّ مقابل تھے
خسرو تھا کہ جم جو تھا...
گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا
مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا
دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں
اُس کا ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا
ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود
آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا
باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول
شاخ سے بڑھ کر کفِ...
ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے
جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے
اندر کی فضاؤں کے کرشمے بھی عجب ہیں
مینہ ٹوٹ کے برسے بھی تو بادل نہیں ہوتے
کچھ مشکلیں ایسی ہیں کہ آساں نہیں ہوتیں
کچھ ایسے معمے ہیں کبھی حل نہیں ہوتے
شائستگیِ غم کے سبب آنکھوں کے صحرا
نمناک تو ہو جاتے ہیں جل تھل...
اے عشق جنوں پیشہ
احمد فراز کی شاعری
( میری ہزاروں آوازیں ہیں )
پروفیسر شمیم حنفی
معروف شخصیتوں اور تخلیقات کے گرد ، کبھی کبھی ، ایک رمز آمیز دائرہ ایک ہالہ سا بن جاتا ہے۔ ہم کبھی تو اس ہالے کو اس شخصیت یا تخلیق تک رسائی یا اس سے شناسائی کے ایک...
اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے
مگر چراغ نے لو کو سنبھال رکھا ہے
محبتوں میں تو ملنا ہے یا اجڑ جانا
مزاجِ عشق میں کب اعتدال رکھا ہے
ہوا میں نشہ ہی نشہ فضا میں رنگ ہی رنگ
یہ کس نے پیرہن اپنا اچھا رکھا ہے
بھلے دنوں کا بھروسا ہی کیا رہیں نہ رہیں
سو میں نے رشتہ غم کو بحال رکھا ہے
ہم...
السلام علیکم!
اس دھاگے پر احمد فراز کی کتاب "اے عشق جنوں پیشہ" سے منتخب کلام ان تمام اراکین جانب سے رکھا جا سکتا ہے جن کے پاس یہ کتاب موجود ہے۔
یہ دھاگہ شاید اس کتاب کو برقیانے میں بھی ممد ثابت ہو۔ بجائے مختلف دھاگوں میں بکھرے ہوئے کلام کو جمع کرنے کے اسی ایک دھاگے سے اکٹھا کرنا سہل تر ہو گا۔...