خوابِ گل رنگ کے انجام پہ رونا آیا
آمدِ صبح شب اندام پہ رونا آیا
دل کا مفہوم اشاروں سے اجاگر نہ ہوا
بے کسئِ گلۂ خام پہ رونا آیا
کبھی الفت سی جھلکتی ہے کبھی نفرت سی
اے تعلق ترے ابہام پہ رونا آیا
مری خوشیاں کبھی جس نام سے وابستہ تھیں
جانے کیوں آج اسی نام پہ رونا آیا
لے کے ابھرے گی سحر...
غزلِ غالب
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تُو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں...