آج کل کے ٹی وی گیم شوز پر کیا خوب تبصرہ ہے اکبر کا
٭
ہے حرص و ہوس کے فن کی مجھ کو تکمیل
غیرت نہیں میری بزمِ دانش میں دخیل
ہیں نفس کی خواہشیں بہت مجھ کو عزیز
جب چاہیں کریں خوشی سے مجھ کو وہ ذلیل
٭٭٭
اکبرؔ الٰہ آبادی
کس قدر بے فیض ان روزوں ہوائے دہر ہے
بوئے گل کو دامنِ بادِ صبا ملتا نہیں
ڈھونڈتے ہیں لوگ اس دنیا میں اطمینانِ دل
کچھ بھی لیکن داغِ حسرت کے سوا ملتا نہیں
نیشنل وقعت کے گم ہونے کا ہے اکبر کو غم
آفیشل عزت کا اس کو کچھ مزا ملتا نہیں
دل کی ہمدردی سے کچھ تسکین ہوتی تھی مگر
اب تو اس مظلوم کا بھی کچھ...
بت کدے میں مطمئن رہنا مرا دشوار تھا
بت تو اچھے تھے، برہمن در پئے آزار تھا
اکبرِ مرحوم کتنا بے خود و سرشار تھا
ہوش ساری عمر اس کی زندگی پر بار تھا
نزع میں آئی تجلی روئے جاناں کی نظر
زہر سمجھے تھے جسے وہ شربتِ دیدار تھا
دل ہی دل میں ہو لیے مستِ مئے منصور ہم
شرع میں رخنے کا خطرہ تھا نہ خوفِ دار...
غزل
اکبؔر الٰہ آبادی
دِل زِیست سے بیزار ہے،معلُوم نہیں کیوں
سینے پہ نَفَس بار ہے، معلُوم نہیں کیوں
اِقرارِ وَفا یار نے ہر اِک سے کِیا ہے
مُجھ سے ہی بس اِنکار ہے، معلُوم نہیں کیوں
ہنگامۂ محشر کا تو مقصوُد ہے معلُوم
دہلی میں یہ دربار ہے، معلوم نہیں کیوں
جِس سے دِلِ رنجُور کو ،پہونچی ہے اذِیّت...
لسانُ العصر مشہور شاعراکبرؔ الٰہ آبادی کا یومِ ولادت
اعجاز زیڈ ایچ
سیّد اکبر حسین رضوی نام ، اکبرؔ تخلص تھا۔ ۱۶؍نومبر۱۸۴۶ء کو قصبہ بارہ، ضلع الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مدارس اور سرکاری اسکولوں میں پائی۔ ۱۸۶۶ء میں مختاری کا امتحان پاس کرکے نائب تحصیل دار مقرر ہوئے۔ ۱۸۷۲ء میں وکالت...
مُلّا اوراردو شاعری ( تحریر : محمد شمشیر )
جب مستی و سرورکی حالت میں صوفیا کی زبان سے خلافِ شرع الفاظ نکل جاتے ہیں یا دانستہ مذہب کے خلاف اظہار خیال کیا جاتا ہے ، اسے صوفیانہ اصطلاح میں ’’ شطحیات ‘‘ کہتے ہیں ۔ اسی طرح شاعری میں روایت ہے کہ مُلّا ، شیخ ، واعظ اور زاہد پر لعن طعن کی جاتی ہے ، اسے...
نہ لیسنس* ہتھیار کا ہے، نہ زور
کہ ٹرکی** کے دشمن سے جا کر لڑیں
تہِ دل سے ہم کوستے ہیں مگر
کہ اٹلی کی توپوں میں کیڑے پڑیں
٭
اکبر الٰہ آبادی
*لائسنس
**ترکی
غزل
اکبرؔ الہٰ آبادی
بَوسۂ زُلفِ سِیاہ فام مِلے گا کہ نہیں
دِل کا سودا ہے، مُجھے دام مِلے گا کہ نہیں
خط میں کیا لکِھّا ہے، قاصد کو خبر کیا اِس کی
پُوچھتا ہے، مُجھے اِنعام مِلے گا کہ نہیں
مَیں تِری مست نَظر کا ہُوں دُعاگو، ساقی
صدقہ آنکھوں کا کوئی جام مِلے گا کہ نہیں
قبر پر فاتحہ پڑھنے کو نہ...
یار نے کچھ خبر نہ لی، دل نے جگر نے کیا کیا
نالۂ شب سے کیا ہوا، آہِ سحر نے کیا کیا
دونوں کو پا کے بے خبر، کر گئے کام حسن و عشق
دل نے ہمارے کیا کیا، ان کی نظر نے کیا کیا
صاحبِ تاج و بخت بھی، موت سے یاں نہ بچ سکے
جاہ و حشم سے کیا ہوا، کثرتِ زر نے کیا کیا
کھل گیا سب پہ حالِ دل، ہنستے ہیں دوست...
پوشیدہ ہیں دل میں کہ کلیجے میں نہاں ہیں
کیا جانیے تیرِ نگہِ یار کہاں ہیں
مٹی میں ملانے کو سوئے قبر رواں ہیں
ہم دوش پہ احباب کی اک بارِ گراں ہیں
غیروں پہ تلطف ہے ترحم ہے کرم ہے
معلوم ہوا آپ بڑے فیض رساں ہیں
پھولی نہ پھلی شاخِ امید اپنی کبھی آہ
ہم گلشنِ آفاق میں پامالِ خزاں ہیں
حیران ہوں...
نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجئے
اس فصل میں جو بھیجئے بس آم بھیجئے
ایسا ضرور ہو کہ انہیں رکھ کے کھا سکوں
پختہ اگرچہ بیس تو دس خام بھیجئے
معلوم ہی ہے آپ کو بندے کا ایڈریس
سیدھے الہ آباد مرے نام بھیجئے
ایسا نہ ہو کہ آپ یہ لکھیں جواب میں
تعمیل ہوگی پہلے مگر دام بھیجئے
غزل
اے خوفِ مرگ ! دِل میں جو اِنساں کے تُو رَہے
پِھر کُچھ ہَوس رہے، نہ کوئی آرزُو رَہے
فِتنہ رَہے، فساد رَہے، گُفتگُو رَہے
منظُور سب مجھے، جو مِرے گھر میں تُو رَہے
زُلفیں ہٹانی چہرۂ رنگیں سے کیا ضرُور
بہتر ہے مُشک کی گُلِ عارض میں بُو رَہے
اب تک تِرے سبب سے رَہے ہم بَلا نصیب
اب تابہ حشر گور...
غزل
دِلِ زخمی سےخُوں، اے ہمنشِیں! کُچھ کم نہیں نِکلا
تڑپنا تھا، مگر قسمت میں لِکھّا دَم نہیں نِکلا
ہمیشہ زخمِ دِل پر ، زہر ہی چھڑکا خیالوں نے !
کبھی اِن ہمدموں کی جیب سے مرہم نہیں نِکلا
ہمارا بھی کوئی ہمدرد ہے، اِس وقت دُنیا میں
پُکارا ہر طرف، مُنہ سے کسی کی ہم نہیں نِکلا
تجسُّس کی نظر...
غزل
مُنہ تِرا دیکھ کے فق رنگِ گُلستاں ہوجائے
دیکھ کر زُلف کو سُنبل بھی پریشاں ہوجائے
یادِ قامت میں جو میں نالہ و فریاد کرُوں
پیشتر حشر سے، یاں حشر کا ساماں ہوجائے
جلوۂ مصحفِ رُخسار جو آجائے نظر !
حسرتِ بوسہ میں کافر بھی مُسلماں ہوجائے
آپ کے فیضِ قدم سے ہو بَیاباں گُلزار !
جائیے باغ تو، وہ...
سر میں شوق کا سودا دیکھا
دہلی کو ہم نے بھی جا دیکھا
جو کُچھ دیکھا ، اچّھا دیکھا
کیا بتلائیں کیا کیا دیکھا
کُچھ چہروں پر مَردی دیکھی
کُچھ چہروں پر زردی دیکھی
اچّھی خاصی سردی دیکھی
دِل نے، جو حالت کردی دیکھی
ڈالی میں نارنگی دیکھی
محفل میں سارنگی دیکھی
بے رنگی، با رنگی دیکھی
دہر کی رنگا رنگی...
ہوگیا بدر ہلال اِس کا سبب روشن ہے
روز گھستا تھا تِرے در پہ جبیں تھوڑی سی
منزلِ گور میں کیا خاک مِلے گا آرام
خُو تڑپنے کی وہی، اور زمِیں تھوڑی سی
آپ کو غیر کی راحت کا مُبارک ہو خیال
خیر تکلیف اُٹھالیں گے ہَمِیں تھوڑی سی
اکبر الٰہ آبادی
چرخ سے کُچھ اُمید تھی ہی نہیں
آرزو میں نے کوئی کی ہی نہیں
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
چاہتا تھا بہت سی باتوں کو
مگر افسوس اب وہ جی ہی نہیں
جراتِ عرضِ حال کیا ہوتی
نظرِ لطف اس نے کی ہی نہیں
اس مصبیت میں دل سے کیا کہتا ؟
کوئی ایسی مثال تھی ہی نہیں
آپ کیا جانیں...
غزلِ
اکبر الٰہ آبادی
سمجھے وہی اِس کو جو ہو دِیوانہ کسی کا
اکبر، یہ غزل میری ہے افسانہ کسی کا
گر شیخ و برہمن سُنیں افسانہ کسی کا
معبد نہ رہیں کعبہ و بُتخانہ کسی کا
اﷲ نے دی ہے جو تمھیں چاند سی صُورت
روشن بھی کرو جا کے سیہ خانہ کسی کا
اشک آنکھوں میں آ جائیں عِوضِ نیند کے صاحب
ایسا بھی...
ہم کیوں یہ مبتلائے بے تابیِ نظر ہیں
تسکینِ دل کی یا رب وہ صورتیں کدھر ہیں
ذرّے جو گُل بنے تھے وہ بن گئے بگولے
جو زینتِ چمن تھے وہ خاکِ رہ گزر ہیں
دُنیا کی کیا حقیقت اور ہم سے کیا تعلق
وہ کیا ہے اک جھلک ہے ہم کیا ہیں اک نظر ہیں
ہم نے سُنے بہت کچھ قصّے جہانِ فانی
افسانہ گو غضب ہیں قصّے تو...
کہوں کس سے قصۂ درد و غم، کوئی ہمنشیں ہے نہ یار ہے
جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے
تو ہزار کرتا لگاوٹیں میں کبھی نہ آتا فریب میں
مجھے پہلے اس کی خبر نہ تھی ترا دو ہی دن کا یہ پیار ہے
یہ نوید اوروں کو جا سنا، ہم اسیرِ دام ہیں اے صبا
ہمیں کیا چمن ہے جو رنگ پر، ہمیں کیا جو فصلِ بہار...