اکبرالہٰ آبادی
غزل
پھر گئی آپ کی دو دن میں طبیعت کیسی
یہ وفا کیسی تھی صاحب ، یہ مروّت کیسی
دوست احباب سے ہنس بول کے کٹ جائے گی رات
رندِ آزاد ہیں ، ہم کو شبِ فُرقت کیسی
جس حسِیں سے ہُوئی اُلفت وہی معشوق اپنا
عشق کِس چیز کو کہتے ہیں ، طبیعت کیسی
جس طرح ہوسکے دن زیست کے پورے کرلو
چار دن...
اکبرالہٰ آبادی
ملک میں مجھ کو ذلِیل و خوار رہنے دیجئے
آپ اپنی عزّتِ دربار رہنے دیجئے
دل ہی دل میں باہمی اِقرار رہنے دیجئے
بس خُدا ہی کو گواہ اے یار رہنے دیجئے
اِتّقا کا آج کل اِظہار رہنے دیجئے
آپ ہی یہ غمزہ و اِنکار رہنے دیجئے
دیکھئے گا لُطف، کیا کیا گُل کِھلیں گے شوق سے
مجھ کو آپ اپنے...
غزلِ
اکبر الہٰ آبادی
اے فلک دل کی ترقّی کا جو ساماں ہوتا
طاعتِ حق کا سِتارہ بھی درَخشاں ہوتا
جان لیتا جو شبستانِ فنا کا انجام
صُورتِ شمْع ہراِک بزْم میں گریاں ہوتا
غُنْچہ مُرجھا کے گِرا شاخ سے افسوس نہ کر
کِھل بھی جاتا تو یہی تھا کہ پریشاں ہوتا
ناصحا نالہ و زاری پہ ملامت ہے عبث
چُپ...
اکبرالہٰ آبادی
زیرِ گیسُو رُوئے روشن جلوہ گر دیکھا کِئے
شانِ حق سے، ایک جا شام وسحر دیکھا کِئے
گُل کو خنداں، بُلبُلوں کو نوحہ گر دیکھا کِئے
باغِ عالم کی دو رنگی عمر بھر دیکھا کِئے
جُنْبشِ ابرو ہی کافی تھی، ہمارے قتل کو !
آپ تو، ناحق سُوئے تیغ وتبر دیکھا کِئے
صبْرکر بیٹھے تھے...
ہلکی پُھلکی شاعری میں گہری وزنی باتیں اکبر الہ آبادی کا ہی خاصہ تھیں۔
ان کی شاعری لطیف اور خوب الفاظ میں کہیں چوٹ، کہیں مشاہدہ کی صورت ہی رہی،
جو اک آگ چڑھی دیگچی کی بھاپ کے طرح فضا میں گرمی اور بُو
بکھیرتی رہی تھی، اور حواسِ خمسہ خُوب رکھنے والوں کو کبھی گراں اور کبھی محبوب تھیں
ہم اگر غور...
ہم کیوں یہ مبتلائے بے تابیِ نظر ہیں
تسکینِ دل کی یا رب وہ صورتیں کدھر ہیں
ذرّے جو گُل بنے تھے وہ بن گئے بگولے
جو زینتِ چمن تھے وہ خاکِ رہ گزر ہیں
دُنیا کی کیا حقیقت اور ہم سے کیا تعلق
وہ کیا ہے اک جھلک ہے ہم کیا ہیں اک نظر ہیں
ہم نے سُنے بہت کچھ قصّے جہانِ فانی
افسانہ گو غضب ہیں قصّے تو...
کہوں کس سے قصۂ درد و غم، کوئی ہمنشیں ہے نہ یار ہے
جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے
تو ہزار کرتا لگاوٹیں میں کبھی نہ آتا فریب میں
مجھے پہلے اس کی خبر نہ تھی ترا دو ہی دن کا یہ پیار ہے
یہ نوید اوروں کو جا سنا، ہم اسیرِ دام ہیں اے صبا
ہمیں کیا چمن ہے جو رنگ پر، ہمیں کیا جو فصلِ بہار...
غزل
خودی بھی مجھ سے جب واقف نہ تھی میں تب سے بسمل ہوں
ازل سے کشتہِ تیغِ نگاہِ نازِ قاتل ہوں
دلا کیوں کر میں اس رخسار روشن کے مقابل ہوں
جسے خورشید محشر دیکھ کر کہتا ہے میں تل ہوں
خمِ گیسو پر اک رشک پری کے دل سے مائل ہوں
مجھے بھی ان دنوں سودا ہے دیوانوں میں داخل ہوں
نہیں معلوم اس...
انہیں شوق عبادت بھی ہے اور گانے کی عادت بھی
نکلتی ہیں دعائیں ان کے منہ سے ٹھمریاں ہو کر
تعلق عاشق و معشوق کا تو لطف رکھتا ہے
مزے اب وہ کہاں باقی رہے بیوی میاں ہو کر
نہ تھی مطلق توقع بل بنا کر پیش کر دو گے
میری جاں لٹ گیا میں تمھارا مہماں ہو کر
حقیقت میں میں بلبل ہوں مگر چارے کی خواہش ہے...
اکبر الٰہ آبادی کے خوبصورت اشعار
بے تمہارے دیکھے اب دم بھر بھی چین آتا نہیں
سچ بتاؤ جانِ جاں، تم نے مجھے کیا کردیا
سب کے سب باہر ہوئے، وہم و خرد، ہوش و تمیز
خانۂ دل میں تم آؤ، ہم نے پردا کردیا