غزل
حفیظ جالندھری
عاشِق سا بدنصیب کوئی دُوسرا نہ ہو
معشُوق خود بھی چاہے تو اِس کا بَھلا نہ ہو
ہے مُدّعائے عِشق ہی دُنیائے مُدّعا
یہ مُدّعا نہ ہو تو کوئی مُدّعا نہ ہو
عِبرت کا درس ہے مجھے ہر صورتِ فقِیر
ہوتا ہے یہ خیال کوئی بادشاہ نہ ہو
پایانِ کارموت ہی آئی بروئے کار
ہم کو تو وصل چاہیے...
شامِ رنگیں
حفیظ جالندھری
پچّھم کے در پہ سُورج بِستر جما رہا ہے
رنگین بادلے میں چہرہ چُھپا رہا ہے
کِرنوں نے رنگ ڈالا بادل کی دھارِیوں کو
پھیلا دِیا فلک پر گوٹے کِناریوں کو
عکسِ شَفَق نے کی ہے اِس طرح زرفشانی
گُھل مِل کے بہ رہے ہیں ندی میں آگ پانی
اوڑھے سِیہ دوپٹّے سرسبز وادِیوں نے...
غزلِ
حفیظ جالندھری
جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہُوں
وہیں ڈوبا ہُوا پایا گیا ہُوں
بہ حالِ گُمرہی پایا گیا ہُوں
حرَم سے دیر میں لایا گیا ہُوں
بَلا کافی نہ تھی اِک زندگی کی
دوبارہ یاد فرمایا گیا ہُوں
بَرنگِ لالۂ وِیرانہ بیکار
کِھلایا اور مُرجھایا گیا ہُوں
اگرچہ ابرِ گوہر بار ہُوں میں
مگر آنکھوں...
غزلِ
حفیظ جالندھری
مِل جائے مے، تو سجدۂ شُکرانہ چاہیے
پیتے ہی ایک لغزشِ مستانہ چاہیے
ہاں احترامِ کعبہ و بُتخانہ چاہیے
مذہب کی پُوچھیے تو جُداگانہ چاہیے
رِندانِ مے پَرست سِیہ مَست ہی سہی
اے شیخ گفتگوُ تو شریفانہ چاہیے
دِیوانگی ہے، عقل نہیں ہے کہ خام ہو
دِیوانہ ہر لحاظ سے، دِیوانہ...
غزلِ
حفیظ جالندھری
عِشق نے حُسن کی بیداد پہ رونا چاہا
تُخمِ احساسِ وفا سنگ میں بونا چاہا
آنے والے کسی طوُفان کا رونا رو کر
نا خُدا نے مجھے ساحِل پہ ڈبونا چاہا
سنگ دِل کیوں نہ کہیں بُتکدے والے مجھ کو
میں نے پتّھر کا پرِستار نہ ہونا چاہا
حضرتِ شیخ نہ سمجھے مِرے دِل کی قیمت
لے کے تسبِیح...
حفیظ جالندھری
غزل
مِرے مذاقِ سُخن کو سُخن کی تاب نہیں
سُخن ہے نالۂ دل ، نالۂ رباب نہیں
اگر وہ فتنہ ، کوئی فتنۂ شباب نہیں
تو حشر میرے لئے وجہِ اضطراب نہیں
نہیں ثواب کی پابند بندگی میری
یہ اِک نشہ ہے جو آلودۂ شراب نہیں
مجھے ذلیل نہ کر عُذرِ لن ترانی سے
یہ اہلِ ذوق کی توہین ہے، جواب نہیں...