غزل
ابوالاثر حفیظ جالندھری
اب وہ نوید ہی نہیں، صوتِ ہزار کیا کرے
نخلِ امید ہی نہیں، ابرِ بہار کیا کرے
دن ہو تو مہر جلوہ گر، شب ہو تو انجم و قمر
پردے ہی جب ہوں پردہ درِ روئے نگار کیا کرے
عشق نہ ہوتو دل لگی، موت نہ ہو تو خود کشی
یہ نہ کرے تو آدمی، آخر ِ کار کیا کرے
اہلِ ہوس بھی...