دل زدوں کے بس میں کیا تھا بے بسی بڑھتی گئی
بے رُخی بڑھتی رہی، وارفتگی بڑھتی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک تبسم، اک کلی کافی تھی ساری عمر کو
کیا کریں ہر گھونٹ اپنی تشنگی بڑھتی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جتنا جتنا بے ثباتی کا یقیں آتا گیا
اتنی اتنی زندگی میں دلکشی بڑھتی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھ میں جو شمع تھی...
اجالا دے چراغ رہ گزر آساں نہیں ہوتا
ہمیشہ ہو ستارا ہم سفر آساں نہیں ہوتا
جو آنکھوں اوٹ ہے چہرہ اسی کو دیکھ کر جینا
یہ سوچا تھا کہ آساں ہے مگر آساں نہیں ہوتا
بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا
اندھیری کاسنی راتیں یہیں سے ہو کے گزریں گی
جلا رکھنا...
ایک موہوم اضطراب سا ہے
اک تلاطم سا پیچ و تاب سا ہے
امڈے آتے ہیں خودبخود آنسو
دل پہ قابو نہ آنکھ پر قابو
دل میں اک درد میٹھا میٹھا سا
رنگ چہرے کا پھیکا پھیکا سا
زلف بکھری ہوئی پریشاں حال
آپ ہی آپ جی ہوا ہے نڈھال
سینے میں اک چبھن سی ہوتی ہے
آنکھوں میں کیوں جلن سی ہوتی ہے
سر میں پنہاں تصور...
مگرادا جعفری کے نزدیک یہ رائیگانی کا دور ہے۔ اُنھوں نے اپنی نظم ‘‘عہدِ زیاں’’میں اسی المیے کو بیان کیا ہے:
وہ سب بچوں کو
ہر گھرمیں مکیں ملتیں
اُجالا چاندنی سا اُن کے بالوں پر
اُجالا آیتوں سا اُن کی باتوں میں
وہ اب بھی
یاد تو بچوں کو آتی ہیں
کسی گھر میں نہیں ملتیں
زمیں کے فاصلے
عہدِ زیاں میں بڑھ...
مجھ کو کعبہ کلیسا میں جانا نہیں
مِہر گستاخ کی یہ کہاں آبرو
آدھا کافر مسلمان کے بھیس میں
جیسے مندر کی دیوی بڑی خوبرو
ایسا میکش جو بوتل میں سجدہ کروں
روز جام و سبو ھے میرے روبرو
کیا تماشا لگا ھے میرے میکدے
ھے صراحی میں تو جام میں تو ھی تو
ایسے نفرت سے دیکھو نہیں شیخ جی
تو ھے محراب میں اور میں کو...
اداجعفری
ادب
اذان
ارددو غزل
اس بزم میں
اس شب کے مقدر میں
اقبال اشعر
بھگوان
دا غ دہلوی
زندگی
شاعر
شرا
شراب
شراب نوشی
شرابی
شعر
شعر اقبال
شعر دے وچ کسے لفظ نال بیت بازی
شعر و ادب
علامہ اقبال
قائد اعظم
مسجد
گاؤں
غزل
خود حِجابوں سا، خود جمال سا تھا
دِل کا عالَم بھی بے مِثال سا تھا
عکس میرا بھی آئنوں میں نہیں
وہ بھی اِک کیفیت خیال سا تھا
دشت میں، سامنے تھا خیمۂ گل
دُورِیوں میں عجب کمال سا تھا
بے سبب تو نہیں تھا آنکھوں میں
ایک موسم، کہ لازوال سا تھا
تھا ہتھیلی پہ اِک چراغِ دُعا
اور ہر لمحہ اِک سوال سا...
غزل
نجمہ انصار نجمہ
اے دِل ! یہ تِری شورشِ جذبات کہاں تک
اے دِیدۂ نم اشکوں کی برسات کہاں تک
برہَم نہیں ہم، آپ کی بیگانہ روِی سے !
اپنوں سے مگر ترکِ مُلاقات کہاں تک
آخر کوئی مہتاب تو ہو اِس کا مُقدّر
بھٹکے گی سِتاروں کی یہ بارات کہاں تک
ہو جاتا ہے آنکھوں سے عیاں جُرمِ محبّت
پوشِیدہ...
جیسے دریا کنارے
کوئی تشنہ لب
آج میرے خدا
میں یہ تیرے سوا اور کس سے کہوں
میرے خوابوں کے خورشید و مہتاب سب
میرے آنکھوں میں اب بھی سجے رہ گئے
میرے حصے میں کچھ حرف ایسے بھی تھے
جو فقط لوح جاں پر لکھے رہ گئے
ادا جعفری
اک دن
تم نے مجھ سے کہا تھا
دھوپ کڑی ہے
اپنا سایہ ساتھ ہی رکھنا
وقت کے ترکش میں جو تیر تھے کھل کر برسے ہیں
زرد ہوا کے پتھریلے جھونکوں سے
جسم کا پنچھی گھایل ہے
دھوپ کا جنگل پیاس کا دریا
ایسے میں آنسو کی اک اک بوند کو
انساں ترسے ہیں
تم نے مجھ سے کہا تھا
سمے کی بہتی ندی میں
لمحے کی پہچان بھی رکھنا...
جیسے دریا کنارے
کوئی تشنہ لب
آج میرے خدا
میں یہ تیرے سوا اور کس سے کہوں
میرے خوابوں کے خورشید و مہتاب سب
میرے آنکھوں میں اب بھی سجے رہ گئے
میرے حصے میں کچھ حرف ایسے بھی تھے
جو فقط لوح جاں پر لکھے رہ گئے
غزل
حال کُھلتا نہیں جبینوں سے
رنج اُٹھائے ہیں کن قرینوں سے
رات آہستہ گام اُتری ہے
درد کے ماہتاب زینوں سے
ہم نے سوچا نہ اُس نے جانا ہے
دل بھی ہوتے ہیں آبگینوں سے
کون لے گا شرارِ جاں کا حساب
دشتِ امروز کے دفینوں سے
تو نے مژگاں اُٹھا کے دیکھا بھی
شہر خالی نہ تھا مکینوں سے
آشنا آشنا پیام آئے...
غزل
گھر کا رستہ بھی ملا تھا شاید
راہ میں سنگِ وفا تھا شاید
اِک ہتھیلی پہ دیا ہے اب تک
ایک سورج نہ بجھا تھا شاید
اس قدر تیز ہوا کے جھونکے
شاخ پر پھول کِھلا تھا شاید
لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے
وہم سا دل کو ہُوا تھا شاید
خونِ دل میں تو ڈبویا تھا قلم
اور پھر کچھ نہ لکھا تھا شاید
تجھ کو بُھولے...
ہرشخص پریشان سا حیراں سا لگے ہے
سائے کو بھی دیکھوں تو گریزاں سا لگے ہے
کیا آس تھی دل کو کہ ابھی تک نہیں ٹوٹی
جھونکا بھی ہوا کا ہمیں مہماں سا لگے ہے
خوشبو کا یہ انداز بہاروں میں نہیں تھا
پردے میں صبا کے کوئی ارماں سا لگے ہے
سونپی گئی ہر دولتِ بیدار اسی کو
یہ دل جو ہمیں آج بھی ناداں سا لگے ہے...
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے
حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دل گیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے
لمہحاتِ مسرت ہیں تصوّر سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
تاروں سے سجالیں گے رہ شہرِ تمنّا
مقدور نہیں صبح ، چلو شام ہی آئے
کیا...
یہی نہیں کہ زخم ِ جاں کو چارہ جُو ملا نہیں
یہ حال تھا کہ دل کو اسمِ آرزو ملا نہیں
ابھی تلک جو خواب تھے چراغ تھے گلاب تھے
وہ رہگزر کوئی نہ تھی کہ جس پہ تو ملا نہیں
تمام عمر کی مسافتوں کے بعد ہی کھلا
کبھی کبھی وہ پاس تھا جو چار سو ملا نہیں
وہ جیسے ایک خیال تھا جو زندگی پہ چھا گیا...
غزل
یہ فخر تو حاصل ہے برے ہیں کہ بھلے ہیں
دو چار قدم ہم بھی تیرے ساتھ چلے ہیں
جلنا تو خیر چراغوں کا مقدر ہے ازل سے
یہ دل کے کنول ہیں کہ بجھے ہیں نہ جلے ہیں
تھے کتنے ستارے کہ سرِ شام ہی ڈوبے
ہنگامِ سحر کتنے ہی خورشید ڈھلے ہیں
جو جھیل گئے ہنس کے کڑی دھوپ کے تیور
تاروں کی خنک...
شکست
بال آیا نہ چھنک کے ٹوٹے
ٹوٹنا جن کا مقّدر ٹوٹے
لب پہ الفاظ تو خواب آنکھوں میں
وہ ستارے ہوں کہ ساغر ٹوٹے
حسن ِتخلیق کی توہین ہوئی
ناز تخیل کی شہہ پر ٹوٹے
نذر ِ تادیب ہے ناگفتہ بیاں
نا تراشیدہ بھی پیکر ٹوٹے
تم اِک امید کی خاطر روئے
اِس صنم زار میں آذر ٹوٹے
(ادا جعفری)