غزل
(علی جواد زیدی - لکھنؤ ، انڈیا)
آنکھوں میں اشک بھر کے مجھ سے نظر ملا کے
نیچی نگاہ اٹھی فتنے نئے جگا کے
میں راگ چھیڑتا ہوں ایمائے حسن پا کے
دیکھو تو میری جانب اک بار مسکرا کے
دنیائے مصلحت کے یہ بند کیا تھمیں گے
بڑھ جائے گا زمانہ طوفاں نئے اٹھا کے
جب چھیڑتی ہیں ان کو گمنام آرزوئیں
وہ...
غزل
(دواکر راہی)
کچھ آدمی سماج پہ بوجھل ہیں آج بھی
رسّی تو جل گئی ہے مگر بَل ہیں آج بھی
انسانیت کو قتل کیا جائے اس لیے
دیر و حرم کی آڑ میں مقتل ہیں آج بھی
اب بھی وہی ہے رسم و روایت کی بندگی
مطلب یہ ہے کہ ذہن مقفل ہیں آج بھی
باتیں تمہاری شیخ و برہمن خطا معاف
پہلے کی طرح غیر مدلل ہیں آج بھی...
غزل
(افتخار عارف)
اب بھی توہینِ اطاعت نہیں ہوگی ہم سے
دل نہیں ہوگا تو بیعت نہیں ہوگی ہم سے
روز اک تازہ قصیدہ نئی تشبیت کے ساتھ
رزق برحق ہے یہ خدمت نہیں ہوگی ہم سے
دل کے معبود جبینوں کے خدائی سے الگ
ایسے عالم میں عبادت نہیں ہوگی ہم سے
اجرت عشق وفا ہے تو ہم ایسے مزدور
کچھ بھی کرلیں گے یہ محنت...
غزل
(امجد اسلام امجد)
بدن سے اُٹھتی تھی اس کے خوش بو، صبا کے لہجے میں بولتا تھا
یہ میری آنکھیں تھیں اس کا بستر وہ اس میں سوتا تھا جاگتا تھا
حیا سے پلکیں جھکی ہوئی تھیں، ہوا کی سانسیں رُکی ہوئی تھیں
وہ میرے سینے میں سر چھپائے نہ جانے کیا بات سوچتا تھا
کوئی تھا چشمِ کرم کا طالب کسی پہ شوقِ وصال،...
غزل
(بانی)
ہاتھ تھے روشنائی میں ڈوبے ہوئے اور لکھنے کو کوئی عبارت نہ تھی
ذہن میں کچھ لکیریں تھیں، خاکہ نہ تھا۔ کچھ نشاں تھے نظر میں، علامت نہ تھی
زرد پتے کہ آگاہ تقدیر تھے، ایک زائل تعلق کی تصویر تھے
شاخ سے سب کو ہونا تھا آخر جُدا، ایسی اندھی ہوا کی ضرورت نہ تھی
اک رفاقت تھی زہریلی ہوتی ہوئی،...
غزل
(کلیم قیصر)
ہم جو تجھ میں سمائے رہتے ہیں
ساری دنیا پہ چھائے رہتے ہیں
جتنے پھل دار پیڑ ہیں جھک کر
اپنی قیمت بڑھائے رہتے ہیں
یہ ہُنر والے کس ہُنر کے ساتھ
عیب اپنے چھپائے رہتے ہیں
یہ بھی اک خاندان ہے جس میں
لوگ سارے پرائے رہتے ہیں
کیسے بندے ہیں یہ خُدا تیرے
ہر جگہ سر جھکائے رہتے ہیں
چند...