گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا
جو دل میں ہے اب اس کا تذکرہ کرنا پڑے گا
نتیجہ کربلا سے مختلف ہو یا وہی ہو
مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا
وہ کیا منزل جہاں سے راستے آگے نکل جائیں
سو اب پھر اک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا
لہو دینے لگی ہے چشم خوں بستہ سو اس بار
بھری آنکھوں سے خوابوں کو رہا...
شرف کے شہر میں ہر بام و در حسین کا ہے
زمانے بھر کے گھرانوں میں گھر حسین کا ہے
فراتِ وقتِ رواں ! دیکھ سوئے مقتل دیکھ
جو سر بلند ہے اب بھی وہ سر حسین کا ہے
زمیں کھا گئی کیا کیا بلند و بالا درخت
ہرا بھرا ہے جو اب بھی شجر حسین کا ہے
سوالِ بیعتِ شمشیر پر جواز بہت
مگر جواب وہی معتبر حسین کا ہے...