غزل
احمد فرازؔ
مَیں کِس کا بخت تھا، مِری تقدِیر کون تھا
تُو خواب تھا ، تو خواب کی تعبِیر کون تھا
مَیں بے گلِیم لائقِ دُشنام تھا، مگر!
اہلِ صَبا میں صاحبِ توقِیر کون تھا
اب قاتِلوں کا نام و نِشاں پُوچھتے ہو کیا
ایسی محبّتوں سے بغلگیر کون تھا
مَیں زخم زخم اُس سے گَلے مِل کے کیوں ہُوا
وہ دوست...
شاعر
جس آگ سے جل اُٹّھا ہے جی آج اچانک
پہلے بھی مرے سینے میں بیدار ہُوئی تھی
جس کرب کی شدّت سے مری رُوح ہے بےکل
پہلے بھی مرے ذہن سے دوچار ہُوئی تھی
جس سوچ سے میں آج لہو تُھوک رہا ہُوں
پہلے بھی مرے حق میں یہ تلوار ہُوئی تھی
وہ غم، غَمِ دُنیا جسے کہتا ہے زمانہ
وہ غم! مجھے جس غم سے سروکار نہیں تھا...
" مَیں اور تُو "
روز جب دُھوپ پہاڑوں سے اُترنے لگتی
کوئی گھٹتا ہُوا بڑھتا ہُوا بیکل سایہ
ایک دِیوار سے کہتا کہ مِرے ساتھ چلو
اور زنجیرِ رفاقت سے گُریزاں دِیوار
اپنے پندار کے نشے میں سدا اِستادہ
خواہشِ ہمدمِ دِیرِینہ پہ ہنس دیتی تھی
کون دِیوار، کسی سائے کے ہمراہ چلی
کون دِیوار، ہمیشہ مگر...
غزل
جب سب کے دِلوں میں گھر کرے تُو
پِھر کیوں ہَمَیں در بَدر کرے تُو
یہ حال ہے شام سے تو اے دِل!
مُشکِل ہے کہ اب سَحر کرے تُو
آنکھوں میں نِشان تک نہ چھوڑے
خوابوں کی طرح سفر کرے تُو
اِتنا بھی گُریز اہلِ دِل سے
کوئی نہ کرے، مگر کرے تُو
خوشبُو ہو ، کہ نغمہ ہو، کہ تارا
ہر ایک کو، نامہ بر...
غزل
حیران ہُوں خود کو دیکھ کر مَیں
ایسا تو نہیں تھا عمر بھر مَیں
وہ زِندہ دِلی کہاں گئی ہے
ہنستا تھا اپنے حال پر جب مَیں
آدابِ جُنونِ عاشقی سے
ایسا بھی نہیں تھا بے خبر مَیں
واسوخت کبھی نہ مَیں نے لِکھّی
رویا بھی کبھی جو ٹُوٹ کر مَیں
صیّاد پرست جو بھی سمجھیں
زنداں کو سمجھ سکا نہ گھر مَیں...
غزل
دِل میں، اب طاقت کہاں خُوننابہ افشانی کرے
ورنہ ،غم وہ زہر ہے، پتّھر کو بھی پانی کرے
عقل وہ ناصح، کہ ہر دَم لغزِشِ پا کا خیال
دِل وہ دِیوانہ، یہی چاہےکہ نادانی کرے
ہاں مجھے بھی ہو گِلہ بے مہریِ حالات کا
تُجھ کو آزردہ اگر میری پریشانی کرے
یہ تو اِک شہرِ جنُوں ہے چاک دامانو، یہاں
سب...
غزل
یہ طبِیعت ہے، تو خود آزار بن جائیں گے ہم !
چارہ گر رَوئیں گے، اور غم خوار بن جائیں گے ہم
ہم سَرِ چاک وفا ہیں اور تِرا دستِ ہُنر
جو بنا دے گا ہَمَیں اے یار! بن جائیں گے ہم
کیا خبر تھی اے نِگارِشعر! تیرے عِشق میں
دِلبرانِ شہر کے دِلدار بن جائیں گے ہم
سخت جاں ہیں، پر ہماری اُستواری پر نہ جا...
نہ جانے ظرف تھا کم یا انا زیادہ تھی
کلاہ سر سے تو قد سے قبا زیادہ تھی
رمیدگی تھی تو پھر ختم تھا گریز اس پر
سپردگی تھی تو بے انتہا زیادہ تھی
غرور اس کا بھی کچھ تھا جدائیوں کا سبب
کچھ اپنے سر میں بھی شاید ہوا زیادہ تھی
وفا کی بات الگ پر جسے جسے چاہا
کسی میں حسن، کسی میں ادا زیادہ تھی...
غزلِ
دُکھ کی دو اِک برساتوں سے، کب یہ دِلِ پایاب بھرا
وہ تو کوئی دریا لے آیا ، دریا بھی سیلاب بھرا
سوچا تھا! غم کو غم کاٹے، زہر کا زہر بنے تریاق
اب دِل آبلہ آبلہ ہے، اور شیشۂ جاں زہراب بھرا
تم آ جاتے، تو اُس رُت کی عُمر بھی لمبی ہو جاتی
ابھی تھا دیواروں پر سبزہ، ابھی تو صحن گلاب بھرا
جانے...
غزلِ
سو دُوریوں پہ بھی مِرے دِل سے جُدا نہ تھی
تُو میری زندگی تھی، مگر بے وفا نہ تھی
دِل نے ذرا سے غم کو قیامت بنا دِیا
ورنہ وہ آنکھ اِتنی زیادہ خفا نہ تھی
یُوں دِل لرز اُٹھا ہے کسی کو پُکار کر
میری صدا بھی جیسے کہ میری صدا نہ تھی
برگِ خِزاں جو شاخ سے ٹوُٹا وہ خاک تھا
اِس جاں سُپردگی کے تو...
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
محمدصفدر
ادب برائے ادب کہ ادب برائے زندگی، دونوں مفروضے مکمل طور پر درست ہیں نامکمل طور پر غلط ۔ ادب کی ذمہ داری اخلاقی محاسن کا پیدا کرنا ہے نہ ہی ادب زندگی کے اس رُخ سے منہ پھیر سکتا ہے ۔ادیب خلا میں رہتا ہے اور نہ خیال آسمان سے وارد ہوتا ہے ۔ زندگی کا...