غزل برائے اصلاح
صدقۂ گُل رُخاں نہ ہو جائے
دل مرا پھر جواں نہ ہو جائے
وہ جو الزام مجھ پہ دھرتے ہیں
ان کا تُو ہمزباں نہ ہو جائے
تیرے بن ٹھن کے یوں نکلنے پر
دل یہ آتش فشاں نہ ہو جائے
آج شب پھر تمہاری آمد ہے
گنگ پھر سے زباں نہ ہو جائے
آگئے ہو اگر تو مت جاؤ
میرا گھر پھر مکاں نہ ہو...