میں کوئی تقدیر کا ٹوٹا ستارا ہی سہی
کیا ہوا انسان تو ہوں، غم کا مارا ہی سہی
مال و ذر کی آرزو میں کیوں سکوں غارت کروں؟
ہو رہا ہے بس گزارا، تو گزارا ہی سہی
جانتا ہوں چاند کو چھونا کہاں آسان ہے
دسترس میں وہ نہیں اس کا نظارہ ہی سہی
میں بھلا کب تک تلاطم خیز موجوں سے لڑوں
تو نہیں تو دوسرا کوئی کنارا...
زندگی اپنی گزارو سنتوں کے درمیاں
تزکیہ دل کا کرو تم سانحوں کے درمیاں
مطمئن کیسے رہوں میں دوستو بتلاؤ تو
زندگی الجھی ہوئی ہے مسئلوں کے درمیاں
کاش گھر گھر ہو چراغاں الفتوں کے نور سے
کٹ رہی ہے زندگی کیوں نفرتوں کے درمیاں
تم ہو غمخوارِ زماں گر دور کر دو غم مرے
رہ رہا ہوں مدتوں...
موت کے وار سے بچ ہی نہیں پایا کوئی
ہاں عدم جا کے تو واپس نہیں لوٹا کوئی
میں ہوں آلام و مصائب سے پریشان بہت
میں ہوں ہمراہ ترے، کاش کہ کہتا کوئی
اب وفادار کہاں مخزنِ اسرار کہاں
رازداں اپنا زمانے میں بھی ہوتا کوئی
ہجر کےغم میں تڑپتا ہوں میں ایسے جانم
جیسے تپتے ہوئے صحرا میں ہو پیاسا کوئی...
یہ جو موسم پہ بہاروں کی گھٹا چھائی ہے
تیری یادوں کو یقینا میری یاد آئی ہے
پھر تیرے نام کی افشا سے سجائی ہے یہ مانگ
رنگ پھر دیکھ میرے ہاتھ کا حنائی ہے
میرے ہونٹوں کی خموشی پے نہ جا اے میرے دوست
کیوں تیرے ذکر پہ آنکھیں میری شرمائی ہے
اب جو بچھڑوں تو کسی راہ میں تجھ سے نہ ملوں
دل نے یوں ترک...