ٹھہرنا پڑے گا زمانے کو اک دن
خلاؤں کی بے نور آنکھوں میں آخر
یہ اڑتا ہوا کارواں منظروں کا
غبارِ تغیّر سے باہر نکل کر
رکے گا کبھی وادیء بے سفر میں
اتارے گا پیراہن ِ رنگ و بو کو
سنائے گا وہ نغمہء سرمدیّت
کہ جس کے شرارے زمان و مکاں میں
تڑپتے رہے لحنِ داؤد بن کر
رلاتے رہے چشمِ یعقوب بن کر
سناتے رہے...