دلِ بے خبر، ذرا حوصلہ !
کوئی ایسا گھر بھی ہے شہر میں، جہاں ہر مکین ہو مطمئن
کوئی ایسا دن بھی کہیں پہ ہے، جسے خوفِ آمدِ شب نہیں
یہ جو گردبادِ زمان ہے، یہ ازل سے ہے کوئی اب نہیں
دلِ بے خبر، ذرا حوصلہ!
یہ جو خار ہیں تِرے پاؤں میں، یہ جو زخم ہیں تِرے ہاتھ میں
یہ جو خواب پھرتے ہیں دَر بہ دَر، یہ...
اے شمعِ کوئے جاناں
ہے تیز ہوا ، مانا
لَو اپنی بچا رکھنا ۔ رستوں پر نگاہ رکھنا
ایسی ہی کسی شب میں
آئے گا یہاں کوئی ، کچھ زخم دکھانے کو
اِک ٹوٹا ہوا وعدہ ، مٹی سے اُٹھانے کو
پیروں پہ لہو اُس کے
آنکھوں میں دھواں ہوگا
چہرے کی دراڑوں میں
بیتے ہوئے برسوں کا
ایک ایک نشاں ہوگا
بولے...
مشورہ
لذیذ ہو تو حکایت دراز تر بھی کروں
زوال کی ھے شکایت سو اس زمان میں
ھے کون جو اس نعمت سے بہرہ مند نہیں
دہانِ خشک سے تلخی ملے گی ، قند نہیں
تو آؤ آج سے یہ رسمِ گفتگو چھوڑیں
عنانِ وقت کو تھامیں خود اپنے ہاتھوں میں
بہت نہیں تو ذرا سا ہی اس کا رخ موڑیں!
وہ ملال تو کوئی اور تھا
مرے چار سو جو کھلا رہا ،وہ جمال تو کوئی اور تھا
مرے خواب جس میں الجھ گئے، وہ خیال تو کوئی اور تھا
یہاں کس حساب کو جوڑتے
مرے صبح و شام بکھر گئے!
جو ازل کی صبح کیا گیا، وہ سوال تو کوئی اور تھا
جسے تیرا جان کے رکھ لیا، وہ ملال تو کوئی اور تھا...
ناممکن
آنکھوں کو کیسے مل سکے خوابوں پہ اختیار
قوسِ قزح کے رنگ کہیں ٹھہرتے نہیں
منظر بدلتے جاتے ہیں نظروں کے ساتھ ساتھ
جیسے کہ ایک دشت میں لاکھوں سراب ہوں
جیسے کہ اک خیال کی شکلیں ہوں بے شمار!
(امجد اسلام امجد)
زندگی بھی مہنگی ھے، موت بھی نہیں سستی
یہ زمین بے سایہ
گھر گئی خدا جانے کن عجب عذابوں میں
بے وجود سایوں کا یہ جو کارخانہ ھے
کن عجب سرابوں میں کس طرف روانہ ھے؟
نیستی ھے یا ہستی!
زندگی بھی مہنگی ھے موت بھی نہیں سستی
(امجد اسلام امجد)
یہ جو اب موڑ آیا ھے
یہاں رک کر کئی باتیں سمجھنے کی ضرورت ھے
کہ یہ اس راستے کا ایک حصہ ہی نہیں، سارے
سفر کا جانچنے کا ، دیکھنے کا ، بولنے کا
ایک پیمانہ بھی ھے، یعنی
یہ ایسا آئینہ ھے
جس میں عکسِ حال و ماضی اور مستقبل
بہ یک لمحہ نمایاں ہے
یہ اس کا استعارہ ھے
سنا ھے ریگِ صحرا کے سفر میں...
کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے
کہیں آنکھیں، کہیں چہرا نہیں ہے
یہاں سے کیوں کوئی بیگانہ گزرے
یہ میرے خواب ہیں رستہ نہیں ہے
جہاں پر تھے تری پلکوں کے سائے
وہاں اب کوئی بھی سایا نہیں ہے
زمانہ دیکھتا ہے ہر تماشہ
یہ لڑکا کھیل سے تھکتا نہیں ہے
ہزاروں شہر ہیں ہمراہ اس کے
مسافر دشت میں تنہا نہیں ہے...
کسی کی آنکھ جو پر نم نہیں ہے
نہ سمجھو یہ کہ اس کو غم نہیں ہے
سوادِ درد میں تنہا کھڑا ہوں
پلٹ جاؤں مگر موسم نہیں ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کسی کی
اگرچہ گفتگو مبہم نہیں ہے
سلگتا کیوں نہیں تاریک جنگل
طلب کی لو اگر مدھم نہیں ہے
یہ بستی ہے ستم پروردگاں کی
یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے
کنارا...
یہ دشتِ ہجر یہ وحشت یہ شام کے سائے
خدا یہ وقت تری آنکھ کو نہ دکھلائے
اسی کے نام سے لفظوں میں چاند اترے ہیں
وہ ایک شخص کہ دیکھوں تو آنکھ بھر آئے
کلی سے میں نے گلِ تر جسے بنایا تھا
رتیں بدلتی ہیں کیسے، مجھے ہی سمجھائے
جو بے چراغ گھروں کو چراغ دیتا ہے
اسے کہو کہ مرے شہر کی طرف آئے
یہ...
میرے گھر میں روشن رکھنا
چینی کی گُڑیا سی جب وہ
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی
میری جانب آتی ہے تو
اُس کے لبوں پر ایک ستارہ کِھلتا ہے
"پاپا"
اللہ۔ اس آواز میں کتنی راحت ہے
ننھے ننھے ہاتھ بڑھا کر جب وہ مجھ سے چُھوتی ہے تو
یوں لگتا ہے
جیسے میری رُوح کی ساری سچّائی
اس کے لمس میں جاگ اٹھتی ہے
اے مالک،...
یوں تو کیا چیز زندگی میں نہیں
جیسے سوچی تھی اپنے جی میں ‘ نہیں
دِل ہمارا ہے چاند کا وہ رُخ
جو ترے رُخ کی روشنی میں ، نہیں
سب زمانوں کا حال ہے اِس میں
اِک وہی شام ، جنتری میں نہیں !
ہیں خلاؤں میں کِتنی دُنیا ئیں
جو کِسی حدِّ آگہی میں نہیں !
ہو کیسا، حَرم کہ بُت خانہ
فرق ان...
دل کے دریا کو کسی روز اُتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل، لوٹ کے گھر جانا ہے
اُس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھر جاتی ہے
جیسے پانا ہی اسے، اصل میں مر جانا ہے
بول اے شامِ سفر، رنگِ رہائی کیا ہے؟
دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے
کون اُبھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے
اس کو ہر طور سوئے دشتِ سحر جانا...