ان کی عادت ہے شرارے مرے دل پر رکھنا
خود ستم ڈھا کے مرا نام ستمگر رکھنا
سرخ آنکھوں میں رہے اشک تری یادوں کے
کتنا مشکل ہے شراروں میں سمندر رکھنا
سیج پھولوں کی ہے گلشن ہے نہ خوشبو کوئی
عشق صحرا ہے قدم سوچ سمجھ کر رکھنا
پہلے تجدید وفا کا کوئی امکان تو تھا
اب تو عادت سی ہے دن رات کھلا در رکھنا...
نگاہوں میں کسی کی ڈوب جانے کی تمنا ہے
کہ دریا کو سمندر سے ملانے کی تمنا ہے
مری جاں تجھ کو تجھ سے ہی چرانے کی تمنا ہے
کہ چپکے سے ترے دل میں سمانے کی تمنا ہے
بہارو راستہ چھوڑو، ستارو دور ہٹ جاؤ
کہ اس کی راہ میں یہ دل بچھانے کی تمنا ہے
جو میرے نام کی ہو اور ہو اس میں مری چاہت
ترے ہاتھوں میں...
ظلمت کی کسی حال میں بیعت نہیں کرتے
ہم صاحبِ ایمان ہیں، بدعت نہیں کرتے
ہم خاک نشینوں کی بڑی پختہ نظر ہے
دولت کی چمک دیکھ کےعزت نہیں کرتے
گردن میں سدا رہتا ہے پھر طوقِ غلامی
جو جھک کے تو رہتے ہیں، بغاوت نہیں کرتے
مذہب سے تعلق نہ کوئی دین ہے ان کا
وہ لوگ جو انساں سے محبت نہیں کرتے
فطرت نے...