غزل
جو اَب جہانِ بَرَہنہ کا اِستعارہ ہُوا
مَیں زندگی تِرا اِک پیرَہَن اُتارا ہُوا
سِیاہ خُون ٹپکتا ہے لمحے لمحے سے !
نہ جانے رات پہ شب خُوں ہے کِس نے مارا ہُوا
جکڑ کے سانسوں میں تشہیر ہو رہی ہے مِری
میں ایک قید سپاہی ہُوں جنگ ہارا ہُوا
پھر اُس کے بعد وہ آنسو اُتر گیا دِل میں
ذرا سی دیر...
غزل
عِشق میں جینے کے بھی لالے پڑے
ہائے کِس بیدرد کے پالے پڑے
وادئ وحشت میں جب رکھّا قدم
آ کے میرے پاؤں پر چھالے پڑے
دِل چلا جب کوُچۂ گیسو کی سمت
کوس کیا کیا راہ میں کالے پڑے
دُور تھا، زندا تھے کیا دشتِ جنوُں
چلتے چلتے پاؤں میں چھالے پڑے
کِس نگر نے کردِیا عالم کو مست
ہر جگہ لاکھوں ہیں...
ُ
غزل
نِیم جاں چھوڑ گئی نِیم نِگاہی تیری
زندگی تا صد و سی سال الٰہی تیری
ناز نیرنگ پہ، اے ابلقِ ایّام نہ کر
نہ رہے گی یہ سفیدی یہ سِیاہی تیری
دِل تڑپتا ہے تو کہتی ہیں یہ آنکھیں رو کر
اب تو دیکھی نہیں جاتی ہے تباہی تیری
کیا بَلا سے توُ ڈراتی ہے مجھے، اے شَبِ گور
کچھ شبِ ہجْر سے بڑھ کر ہے...
کل نذیر بھائی نے امیر مینائی کی مشہور زمانہ غزل "جب سے بلبل تُو نے دو تنکے لیے" ارسال کی تو مجھے خیال آیا کہ اسی زمین میں امیر مینائی کی ایک اور غزل بھی موجود ہے۔ سو وہ غزل بھی پیش ہے:
تند مے اور ایسے کمسِن کے لیے
ساقیا! ہلکی سی لا اِن کے لیے
حور یا رب ہے جو مومن کے لیے
بھیج دے دنیا میں دو دن...
بڑا آدمی-- از عطالحق قاسمی
قیامت کی طرح بڑے آدمیوں کی بھی کچھ نشانیاں ہوتی ہیں مثلاً بڑا آدمی بڑے لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے اور لیٹتا ہے۔ وہ تقریبات میں صف اول کی نشستوں پر بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے ، بڑا آدمی جب اپنے رفقاء کے ساتھ کسی اعلیٰ درجے کے ریستوران میں داخل ہوتا ہے تو بیرے اسے جھک کر سلام...
یہ سب ظہورِ شانِ حقیقت بشر میں ہے
جو کچھ نہاں تھا تخم میں، پیدا شجر میں ہے
ہر دم جو خونِ تازہ مری چشمِ تر میں ہے
ناسور دل میں ہے کہ الٰہی جگر میں ہے
کھٹکا رقیب کا نہیں، آغوش میں ہے یار
اس پر بھی اک کھٹک سی ہمارے جگر میں ہے
واصل سمجھیے اس کو جو سالک ہے عشق میں
منزل پہ جانیے اسے جو رہگزر میں ہے...
چاند سا چہرہ، نور سی چتون، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!
خوب نکالا آپ نے جوبن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!
گُل رُخِ نازک، زلف ہے سنبل، آنکھ ہے نرگس، سیب زنخداں
حُسن سے تم ہو غیرتِ گلشن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!
ساقیِ بزمِ روزِ ازل نے بادۂ حسن بھرا ہے اس میں
آنکھیں ہیں ساغر، شیشہ ہے گردن، ماشاء اللہ...
ایک ہے میرے حضر اور سفر کی صورت
گھر میں ہوں گھر سے نکل کر بھی نظر کی صورت
چشمِ عشاق سے پنہاں ہو نظر کی صورت
وصل سے جان چراتے ہو کمر کی صورت
ہوں وہ بلبل کہ جو صیاد نے کاٹے مرے پر
گر گئے پھول ہر اک شاخ سے پر کی صورت
تیرے چہرے کی ملاحت جو فلک نے دیکھی
پھٹ گیا مہر سے دل شیرِ سحر کی صورت
جھانک کر...
فرخصاحب نے فرہنگ آصفیہ ڈاؤن لوڈ کرنے کے روابط ارسال فرما کر دعاؤں کے حق دار ٹھہرے تو ہماری حاسد طبیعت بھی بے چین ہو گئی اور ہم نے بھی اسی "آرکائیو ڈاٹ آرگ" نامی ویب سائٹ سے تلاش کر کے امیر اللغات ڈاؤن لوڈ کرنے کے روابط ارسال کرنے کا سوچا کہ کہیں ساری دعائیں فرخ صاحب ہی نہ لے جائیں حالانکہ یہ...