امیر احمد مینائی

  1. سیما علی

    ”#حضرتِ_امیرؔ_مینائی صاحب“ کا یومِ ولادت...

    آج - 21؍فروری 1829 داغؔ دہلوی کے ہم عصر، ماہرِ علمِ نجوم، کلام میں صحت زباں اور فنی پختگی نمایاں اور مسلمُ الثبوت استاد شاعر ”#حضرتِ_امیرؔ_مینائی صاحب“ کا یومِ ولادت... نام #امیر_احمد_مینائی اور تخلص #امیرؔ تھا۔ 21؍فروری 1829ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ مخدوم شاہ مینا کے خاندان سے تعلق تھا اس لیے...
  2. میم الف

    سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ • امیرؔ مینائی

    سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ شبِ فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو کبھی فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ سوالِ وصل پر اُن کو عدو کا خوف ہے اِتنا دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں...
  3. عبداللہ محمد

    امیر مینائی ہم لوٹتے ہیں وہ سو رہے ہیں

    ہم لوٹتے ہیں وہ سو رہے ہیں کیا ناز و نیاز ہو رہے ہیں کیا رنگ جہاں میں ہو رہے ہیں دو ہنستے ہیں چار رو رہے ہیں دنیا سے الگ جو ہو رہے ہیں تکیوں میں مزے سے سو رہے ہیں پہنچی ہے ہماری اب یہ حالت جو ہنستے تھے وہ بھی رو رہے ہیں تنہا تہ خاک بھی نہیں ہم حسرت کے ساتھ سو رہے ہیں سوتے ہیں لحد میں سونے...
  4. طارق شاہ

    امیر مینائی ::::: عشق میں جینے کے بھی لالے پڑے ::::: Ameer Minai

    غزل عِشق میں جینے کے بھی لالے پڑے ہائے کِس بیدرد کے پالے پڑے وادئ وحشت میں جب رکھّا قدم آ کے میرے پاؤں پر چھالے پڑے دِل چلا جب کوُچۂ گیسو کی سمت کوس کیا کیا راہ میں کالے پڑے دُور تھا، زندا تھے کیا دشتِ جنوُں چلتے چلتے پاؤں میں چھالے پڑے کِس نگر نے کردِیا عالم کو مست ہر جگہ لاکھوں ہیں...
  5. طارق شاہ

    امیر مینائی ::::: مُوئے مِژگاں سے تِرے سینکڑوں مرجاتے ہیں ::::: Ameer Minai

    غزل مُوئے مِژگاں سے تِرے سینکڑوں مرجاتے ہیں یہی نشتر تو رگِ جاں میں اُتر جاتے ہیں حرم و دیر ہیں عُشاق کے مُشتاق، مگر تیرے کوُچے سے اِدھر یہ نہ اُدھر جاتے ہیں کوچۂ یار میں اوّل تو گُزر مُشکل ہے جو گُزرتے ہیں، زمانے سے گُزر جاتے ہیں شمع ساں جلتے ہیں جو بزمِ محبّت میں تِرے نام روشن وہی...
  6. بلال جلیل

    ایک زمین ، تین شاعر

    غزلِ غالب یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا تِرے وعدے پر جِئے ہم، تو یہ جان، جُھوٹ جانا کہ خوشی سے مرنہ جاتے، اگراعتبار ہوتا تِری نازُکی سے جانا کہ بندھا تھا عہدِ بُودا کبھی تو نہ توڑ سکتا، اگراستوار ہوتا کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نِیمکش کو یہ خلِش...
  7. کاشفی

    امیر مینائی بندہ نوازیوں پہ خدائے کریم تھا - امیر مینائی

    غزل (امیرؔ مینائی رحمتہ اللہ علیہ) بندہ نوازیوں پہ خدائے کریم تھا کرتا نہ میں گناہ ، تو گناہِ عظیم تھا کیا کیا نہ آفتوں کے رہے ہم کو سامنے یارب، شباب تھا کہ بلائے عظیم تھا دُنیا میں کچھ قیام نہ سمجھو کرو خیال اس گھر میں تم سے پہلے بھی کوئی مقیم تھا دُنیا کا حال، اہلِ عدم، ہے...
Top