غزلِ
امیر مینائی
گھر گھر تجلّیاں ہیں طلبگار بھی تو ہو
موسیٰ سا کوئی طالبِ دیدار بھی تو ہو
اے تیغِ یار! کیا کوئی قائل ہو برق کا
تیری سی اُس میں تیزئ رفتار بھی تو ہو
دِل درد ناک چاہیے لاکھوں میں خُوب رُو
عیسیٰ ہیں سینکڑوں کوئی بیمار بھی تو ہو
چھاتی سے میں لگائے رہُوں کیوں نہ داغ کو
اے...
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
چھوڑو نہیں اے بتو حیا کو
کیا منہ نہ دکھاؤ گے خدا کو
لٹکاؤ نہ گیسوئے رسا کو
پیچھے نہ لگاؤ اس بلا کو
ظالم تجھے دل دیا، خطا کی
بس بس میں پُہنچ گیا، سزا کو
کانٹوں سے کہو سنبھال لینا
آتا ہے غش اک برہنہ پاکو
بلبل کو ملی جو باغ بانی
روکے در باغ پر...