غزل
جون ایلیا
اِک ہُنر ہے جو کر گیا ہُوں مَیں
سب کے دِل سے اُتر گیا ہُوں مَیں
کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کرُوں!
سُن رہا ہُوں کہ گھر گیا ہُوں مَیں
کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہُوں مَیں
اب ہے بس اپنا سامنا در پیش
ہر کسی سے گزر گیا ہُوں مَیں
وہی ناز و ادا وہی غمزے
سر بہ...
غزل
تم سے راہ و رسم بڑھا کر دِیوانے کہلائیں کیوں
جن گلیوں میں پتّھر برسیں اُن گلیوں میں جائیں کیوں
ویسے ہی تاریک بہت ہیں لمحے غم کی راتوں کے
پھر میرے خوابوں میں یارو، وہ گیسو لہرائیں کیوں
مجبوروں کی اِس بستی میں، کِس سے پُوچھیں، کون بتائے
اپنا مُحلّہ بُھول گئی ہیں بے چاری لیلائیں کیوں...
غزل
(مصحفی غلام ہمدانی امروہوی)
یہ آنکھیں ہیں تو سر کٹا کر رہیں گی
کسو سے ہمیں یاں لڑا کر رہیں گی
اگر یہ نگاہیں ہیں کم بخت اپنی
تو کچھ ہم کو تہمت لگا کر رہیں گی
یہ سفاکیاں ہیں تو جوں مرغ بسمل
ہمیں خاک و خوں میں ملا کر رہیں گی
کیا ہم نے معلوم نظروں سے تیری
کہ نظریں تری ہم کو کھا کر رہیں گی...
غزل
(مصحفی غلام ہمدانی)
ہو چکا ناز، منہ دکھائیے بس
غصہ موقوف کیجے، آئیے بس
فائدہ کیا ہے یوں کھنچے رہنا
میری طاقت نہ آزمائیے بس
"دوست ہوں میں ترا" نہ کہیے یہ حرف
مجھ سے جھوٹی قسم نہ کھائیے بس
آپ کو خوب میں نے دیکھ لیا
تم ہو مطلب کے اپنے جائیے بس
مصحفی عشق کا مزہ پایا
دل کسی سے نہ اب لگائیے بس
غزل
(مصحفی غلام ہمدانی)
اب مجھ کو گلے لگاؤ صاحب
یک شب کہیں تم بھی آؤ صاحب
روٹھا ہوں جو تم سے میں تو مجھ کو
آ کر کے تمہیں مناؤ صاحب
بیٹھے رہو میرے سامنے تم
از بہرِ خدا نہ جاؤ صاحب
کچھ خوب نہیں یہ کج ادائی
ہر لحظہ نہ بھوں چڑھاؤ صاحب
رکھتے نہیں پردہ غیر سے تم
جھوٹی قسمیں نہ کھاؤ صاحب
در گزرے...