غزل
غلام ہمدانی مصحفیؔ
جی میں سمجھے تھے کہ دُکھ درد یہ سب دُور ہُوئے
ہم تو اِس کُوچے میں آ، اور بھی مجبُور ہُوئے
کل جو ہم اشک فشاں اُ س کی گلی سے گُزرے
سینکڑوں نقشِ قدم خانۂ زنبُور ہُوئے
پُھول بادام کے پیارے مُجھے لگتے ہیں، مگر
تیری آنکھوں کے تئیں دیکھ کے مخمُور ہُوئے
دِل پہ از بس کہ...
غزل
غلام ہمدانی مُصحفیؔ امروہوی
ہم تو سمجھے تھے کہ ناسورِ کُہن دُور ہُوئے
تازہ اِس فصل میں زخموں کے پِھر انگُور ہُوئے
سَدِّ رہ اِتنا ہُوا ضُعف، کہ ہم آخرکار!
آنے جانے سے بھی اُس کُوچے کے معذُور ہُوئے
رشک ہے حالِ زُلیخا پہ، کہ ہم سے کم بخت
خواب میں بھی نہ کبھی وصل سے مسرُور ہُوئے
بیچ سے اُٹھ...
غزلِ
مُصحفیؔ
گِل کا پُتلا قضا کے ہاتھ میں ہُوں
ہُوں، پر امرِ خُدا کے ہاتھ میں ہُوں
وہ ہی واقف ہے میری کِل کِل سے
سچ عجب آشنا کے ہاتھ میں ہُوں
ہُوں تو گھٹری پَوَن کی مِثلِ حباب
لیکن، آب و ہَوا کے ہاتھ میں ہُوں
کوزہ ہُوں آبِ صاف کا، لیکن!
ڈر ہے اِتنا، فنا کے ہاتھ میں ہُوں
ہُوں مَیں رنگِ حنا...
غزل
(کفیل آزر امروہوی)
یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد
غزل کسی کو کہا ہی نہیں ہے تیرے بعد
ہے پر سکون سمندر کچھ اس طرح دل کا
کہ جیسے چاند کھلا ہی نہیں ہے تیرے بعد
مہکتی رات سے دل سے قلم سے کاغذ سے
کسی سے ربط رکھا ہی نہیں ہے تیرے بعد
خیال خواب فسانے کہانیاں تھیں مگر
وہ خط تجھے بھی...
غزل
(کفیل آزر امروہوی)
اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
کسی کم ظرف کو با ظرف اگر کہنا پڑے
ایسے جینے سے تو مر جانے کو جی چاہتا ہے
ایک اک بات میں سچائی ہے اس کی لیکن
اپنے وعدوں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے
قرض ٹوٹے ہوئے خوابوں کا ادا ہو جائے...
غزل
تم سے راہ و رسم بڑھا کر دِیوانے کہلائیں کیوں
جن گلیوں میں پتّھر برسیں اُن گلیوں میں جائیں کیوں
ویسے ہی تاریک بہت ہیں لمحے غم کی راتوں کے
پھر میرے خوابوں میں یارو، وہ گیسو لہرائیں کیوں
مجبوروں کی اِس بستی میں، کِس سے پُوچھیں، کون بتائے
اپنا مُحلّہ بُھول گئی ہیں بے چاری لیلائیں کیوں...