غضب کی دھوم شبستان روزگار میں ہے
کشش بلا کی تماشائے ناگوار میں ہے
دکھائی آج ہی آنکھوں نے صورت فردا
خزاں کی سیر بھی ہنگامۂ بہار میں ہے
غبار بن کے لپٹتی ہے دامن دل سے
مٹے پہ بھی وہی دل بستگی بہار میں ہے
دعائے شوق کجا ایک ہاتھ ہے دل پر
اور ایک ہاتھ گریبان تار تار میں ہے
ہنوز گوش بر آواز غیر ہے...
غزل
دِل لگانے کی جگہ عالَمِ ایجاد نہیں
خواب آنکھوں نے بہت دیکھے، مگر یاد نہیں
آج اسیروں میں وہ ہنگامۂ فریاد نہیں
شاید اب کوئی گُلِستاں کا سَبق یاد نہیں
سَرِ شورِیدہ سلامت ہے، مگر کیا کہیے!
دستِ فرہاد نہیں، تیشۂ فرہاد نہیں
توبہ بھی بُھول گئے عشق میں وہ مار پڑی
ایسے اَوسان گئے ہیں کہ خُدا یاد...
غزل
نِگاہِ بے زباں نے کیا اثر ڈالا برہمن پر
مِٹا ہے پیکرِ بے دست و پا کے، رنگ و روغن پر
رہا تا حشر احسانِ ندامت اپنی گردن پر
بجائے مے، ٹپکتا ہے زُلالِ اشک دامن پر
شرف بخشا دِلِ سوزاں نے مُجھ کو دوست دشمن پر
وہ دِل جِس کا ہر اِک ذرّہ ہے بھاری موم و آہن پر
نجانے پہلی منزِل برقِ سوزاں کی کہاں...
غزل
دولتِ دِیدار نے آنکھوں کوروشن کردِیا
مرتبہ عین الیقیں کا آج حاصِل ہو گیا
لے اُڑی خلوت سرا سے تُم کو بُوئے پَیرَہَن
آخر اِک دِن سب حجابِ ناز باطِل ہو گیا
پار اُترے، ڈُوبنے والے محیطِ عِشق کے
حلقۂ گرداب اِک آغوشِ ساحل ہوگیا
صُورت آبادِ جہاں خوابِ پریشاں تھا کوئی
دیکھتے ہی دیکھتےسب، نقشِ...
غزل
مشفؔق خواجہ
غُبار ِ راہ اُٹھا کِس کو روکنے کے لیے
مِری نظر میں تو رَوشن ہیں منزِلوں کے دِیے
اگر فُزُوں ہو غَم ِ دِل، سکوُت بھی ہے کلام
اِسی خیال نے، اہلِ جنوُں کے ہونٹ سِیے
دِلِ حَزِیں میں ، نہ پُوچھ اپنی یاد کا عالَم
فِضائے تِیرہ میں، جیسے کہ جَل اُٹھے ہوں دِیے
فُسُردہ شمعوں سے، ہوتا...
محبت نے ایمان کھویا تو کیا
پشیمانیوں میں ڈبویا تو کیا
حرارت ہے دل کی ابھی تک وہی
زمانے نے اتنا سمویا تو کیا
یہاں کیا دھرا ہے جو ہاتھ آئے گا
کلیجے میں پنجہ گڑویا تو کیا
سرِ بزم پیاسے ہی مرجائیے
کہ تلچھٹ سے دامن بھگویا تو کیا
تہہِ دل سے ہو کچھ تو اک بات ہے
ہنسا میں تو کیا اور رویا تو...
خون کے گھونٹ بلا نوش پیئے جاتے ہیں
خیر ساقی کی مناتے ہیں جیئے جاتے ہیں
ایک تو درد ملا اس پہ شاہانہ مزاج
ہم غریبوں کو بھی کیا تحفے دیے جاتے ہیں
آگ بجھ جائے مگر پیاس بجھائے نہ بجھے
پیاس ہے یا ہوکا کہ پیئے جاتے ہیں
نہ گیا خوابِ فراموش کا سودا نہ گیا
جاگتے سوتے تجھے یاد کیے جاتے ہیں
خوب سیکھا ہے...
چلے چلو جہاں لے جائے ولولہ دل کا
دلیلِ راہ محبت ہے فیصلہ دل کا
ہوائے کوچہ قاتل سے بس نہیں چلتا
کشاں کشاں لیے جاتا ہے ولولہ دل کا
دکھا رہا ہے یہ دونوں جہاں کی کیفیت
کرے گا ساغرِجم کیا مقابلہ دل کا
کسی کے ہو رہو اچھی نہیں یہ آزادی
کسی کی زلف سے لازم ہے سلسلہ دل کا
پیالہ خالی اٹھا کر لگا...
ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا
ہوس نے شوق کے پہلو دبائے ہیں کیا کیا
اسی فریب نے مارا کہ کل ہے کتنی دور
اس آج کل میں عبث دن گنوائے ہیں کیا کیا
پیامِ مرگ سے کیا کم ہے مژدہ ناگاہ
اسیر چونکتے ہی تلملائے ہیں کیا کیا
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا...
خودی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
پیامِ زیرِ لب ایسا کہ کچھ سنا نہ گیا
اشارہ پاتے ہی انگڑائی لی، رہا نہ گیا
گناہِ زندہ دلی کہیے یا دل آزاری
کسی پہ ہنس لئے اتنا کہ پھر ہنسا نہ گیا
سمجھتے کیا تھے مگر سنتے تھے ترانہ درد
سمجھ میں آنے لگا جب تو پھر سنا...
ایک اور تانے بانے میں ابھی یاس یگانہ کی اس غزل کا ایک شعر پوسٹ کیا تھا. خیال آیا کہ پوری غزل ہی یہاں بھی پوسٹ کر دوں. اور شاید یہ تانا بانا ا ب تک مجھ سے اچھوتا تھا، اس کا ازالہ بھی کر دوں.......
غزل.. یاس یگانہ چنگیزی
کس کی آواز کان میں آئی
دور کی بات دھیان میں آئی
آپ آتے رہے بلاتے رہے...
مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا
پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا
بُرا ہو پائے سرکش کا کہ تھک جانا نہیں آتا
کبھی گمراہ ہو کر راہ پر آنا نہیں آتا
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا
دلِ بے حوصلہ ہے اک ذرا سی ٹھیس کا مہماں
وہ آنسو کیا پئے گا...